کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 295
۲۔ اس بحث کی معرفت کا فائدہ: اس بحث کی معرفت کا فائدہ یہ ہے کہ جب ایسے راویوں کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کرکے ذکر کیا جاتا ہے، تو انہیں ایک سے زائد اشخاص سمجھے جانے کا اشتباہ باقی نہیں رہتا۔ ۳۔ غیر آباء کی طرف نسبت کی اقسام اور ہر ایک قسم کی مثال: (محدثین نے اس کی چند اقسام بیان کی ہیں جن کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے) الف: …وہ شخص جو اپنی ماں کی طرف منسوب ہو، اس کی مثال معاذ، معوَّذ اور عوز ہیں جو عفراء کے بیٹے تھے۔ جب کہ ان کے باپ کا نام حارث تھا (مگر یہ تینوں بھائی جو صحابی بھی ہیں ، ماں کی طرف منسوب ہو کر مشہور ہوئے) اسی طرح ’’بلال بن حمامہ‘‘ ہیں جن کے باپ کا نام رباح ہے، اور محمد بن حنفیّہ ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں ۔ ب: …وہ شخص جو اپنی دادی کی طرف منسوب ہو خواہ اوپر کی دادی ہو یا نیچے کی۔ جیسے ’’یعلی بن مُنیہَ‘‘ کہ ’’مُنْیہ‘‘ ان کی دادی تھی اور ان کے والد کا نام امیّہ ہے۔ اسی طرح ’’بشیر بن خصاصیّہ‘‘ کہ خصاصیّہ ان کی تیسری پشت کی دادی ہے۔ اور ان کے والد کا نام ’’معبد‘‘ ہے۔ ج: …وہ شخص جو اپنے دادا کی طرف منسوب ہو، جیسے حضرتِ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کہ ان کا پورا نام عامر بن عبداللہ بن جراح ہے۔ اور ’’امام احمد بن حنبل‘‘ کا ان کا پورا نام ’’احمد بن محمد بن حنبل‘‘ ہے۔ د: …وہ شخص جو کسی وجہ سے کسی اجنبی طرف منسوب ہو: جیسے ’’مقداد بن عمرو کِندی‘‘ کہ انہیں ’’مقداد بن اسود‘‘ کہا جاتا تھا، کیوں کہ یہ اسود بن عبد یغوث کی پرورش میں تھے اور اس نے انہیں اپنا متبنّٰی بنا لیا تھا۔ ۴۔ مشہور تصانیف: ہمیں خاص اس موضوع پر مشتمل کسی کتاب کا پتا نہیں چل سکا، لیکن کتبِ تراجم عموماً رواۃ میں سے ہر ایک کے نسب کو بیان کرتی ہیں خاص طور پر تراجم کی ضخیم کتب۔ ۱۵… خلافِ ظاہر نسبتوں کی معرفت ۱۔ تمہید: متعدد رواۃ ایسے ہیں جو کسی مکان، جگہ، غزوہ، قبیلہ یا پیشہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں لیکن ان نسبتوں سے جو ظاہر اور دماغوں میں متبادر ہوتا ہے، وہ مراد نہیں ہوتا اور واقعہ یہ ہوتا ہے کہ ان رواۃ کی ان مذکورہ نسبتوں کی طرف نسبت کسی عارضہ کی وجہ سے ہوتی ہے مثلاً ان کا اس جگہ اترنا، یا اس پیشہ کے لوگوں کے ساتھ (تھوڑی دیر) ہم نشین ہونا وغیرہ۔[1]
[1] یعنی عموماً ہوتا یہی ہے کہ نسبتیں کسی ظاہری مناسبت سے ہی ہوتی ہیں جیسے کسی نے غزوئہ بدر میں شرکت کی تو بدری کہلایا، مکہ کا باشندہ ہوا تو مکی کہلایا، قریش کا چشم و چراغ ہوا تو قریشی کہلایا اور پارچہ فروش ہوا تو بزاز کہلایا مگر کبھی رواۃ کی نسبتیں تو ہوتیں ہیں مگر کسی مستقل مناسبت کی وجہ سے نہیں ، بلکہ عارضی سبب سے ہوتی ہیں ، جیسے کبھی کوفہ جانا ہوا تو کوفی کہلانے لگے، کسی صاحبِ پیشہ کے پاس زیادہ اٹھے بیٹھے تو وہ بھی عطّار، یا صابونی یا زجّاج یا بزاز وغیرہ کہلانے لگے۔ غرض علوم الحدیث کی اس نوع کی معرفت کا مقصد یہ ہے کہ تلاش و تحقیق کے بعد حقیقی اور عارضی نسبتوں میں خطِ امتیاز کھینچ دیا جائے۔