کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 293
۱۳… معرفت القاب ۱۔ القاب کی لغوی تعریف: لفظ ’’القاب‘‘ یہ ’’لقب‘‘ کی جمع ہے۔ اور لقب ہر وہ نام ہوتا ہے جو کسی عظمت یا پستی کو بتلائے یا کسی کی منقبت یا منقصت پر دلالت کرے۔ ۲۔ معرفت القاب کی بحث سے مراد: اس بحث سے مراد محدثین اور رواۃِ حدیث کے القاب کی تحقیق و تفتیش کرنا ہے تاکہ ہمیں ان کی معرفت بھی حاصل ہو اور ہم ان کو ضبط بھی کر سکیں ۔ ۳۔ معرفت القاب کا فائدہ: معرفت القاب کے دو (اہم) فوائد ہیں ، جو یہ ہیں : الف: …ایک یہ کہ القاب کو اسماء نہ سمجھ لیا جائے اور دوسرے یہ کہ ایسے ایک شخص کو دو نہ سمجھ لیا جائے جس کا کبھی تو نام ذکر کیا جاتا ہو اور کبھی لقب۔ حالاں کہ وہ ایک ہی شخص ہوتا ہے۔ ب: …اس سبب کی معرفت ہو سکے جس کی بنا پر اس راوی کا لقب یہ رکھا گیا تھا، تاکہ لقب کی وہ حقیقی مراد معلوم ہو سکے جو اکثر لقب کے ظاہری معنی کے مخالف (ہی) ہوتی ہے۔ ۴۔ القاب کی اقسام: (اچھے یا بُرے لقب ہونے کے اعتبار سے) لقب کی دو (اساسی) اقسام ہیں : ۱۔ وہ لقب جس کے ساتھ کسی کی تعریف جائز نہ ہو اور یہ وہ القاب ہیں جن کو خود وہ احباب پسند نہیں کرتے جن کا وہ لقب رکھا گیا ہے۔ (دوسرے لفظوں میں اس کو ناجائز لقب کہہ سکتے ہیں ) ۲۔ وہ لقب جس کے ساتھ (کسی کی) تعریف جائز ہو اور یہ وہ لقب ہے جس کو وہ شخص ناپسند نہیں کرتا جس کا یہ لقب ہے۔ (اس کو جائز لقب کہہ سکتے ہیں )۔ ۵۔ القاب کی مثالیں : الف: …’’ضاَلُّ‘‘ (جس کا بظاہر معنی گم راہ ہے مگر) یہ معاویہ بن عبدالکریم کا لقب ہے۔ اور ان کا یہ لقب اس لیے رکھا گیا کیوں کہ یہ مکہ کا راستہ بھول گئے تھے۔ ب: … ضعیف: یہ عبداللہ بن محمد کا لقب ہے۔ اور ان کا یہ لقب ان کے جِسم کے کمزور ہونے کی بنا پر رکھا گیا تھا ناکہ حدیث میں کمزور ہونے کی وجہ سے۔ (اسی لیے) عبدالغنی بن سعید کہا کرتے تھے کہ، ’’دوجلیل القدر شخصیتیں ایسی ہیں جن کو دو بُرے لقب ضالّ اور ضعیف چمٹے ہوئے ہیں ۔‘‘