کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 289
۱۱… مفرد ناموں اور کنیتوں اور القاب کی معرفت ۱۔ مفردات سے کیا مراد ہے؟:[1] مفردات سے مراد ایک شخص کا ایسا نام یا کنیّت یا لقب ہونا ہے جس میں کوئی دوسرا شریک نہ ہو (یعنی وہ نام وغیرہ کسی دوسرے کا نہ ہو) خواہ وہ شخص صحابۂ کرام میں سے ہو یا عام رواۃ میں سے یا علماء میں سے ہو۔ اور اکثر مفردات ایسے نامانوس نام ہوتے ہیں جن کا تلفظ بہت دشوار ہوتا ہے۔ ۲۔ مفردات کی معرفت کا فائدہ: (محدثین نے اس کے متعدد فوائد بیان کیے ہیں ۔ اور اس کا اہم ترین فائدہ آدمی کا) ان مفرد اور نامانوس اسماء میں تحریف اور تصحیف کے ارتکاب سے بچ جانا (ہے)۔ ۳۔ مفردات کی مثالیں : (چوں کہ اصولی طور پر مفردات تین قسم پر ہیں ، مفرد اسماء، مفرد القاب اور مفرد کنیتیں ۔ اس لیے ان کی مثالیں بھی تین قسم کی ہوں گی جن کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے): الف: …مفرد اسماء (کی مثالیں ): ۱۔ مفرد اسماء والے صحابہ: حضرت ’’احمد بن عُجْیَان رضی اللّٰه عنہ ‘‘ (عجیان) جیسے سفیان یا عُلَیَّان اور حضرتِ ’’سَنْدَر رضی اللّٰه عنہ ‘‘ بروزنِ جَعْفَرْ۔ ۲۔ مفرد اسماء والے غیر صحابی: ’’اوسط بن عمرو‘‘ (کہ اوسط نام کا ایک ہی راوی ہے) اور ضُرَیب بن نقیر بن سُمَیر (کہ ضُرَیْب بھی ایک ہی شخص کا نام ہے)۔ ب: …مفرد کنیّتیں : ۱۔ مفرد کنیت والے صحابہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ’’ابو الحمراء‘‘ جن کا نام ’’ہلال بن حارث‘‘ ہے۔ (کہ ایسی کنیت صرف انہی کی ہے)۔ ۲۔ مفرد کنیت والے غیر صحابی: ’’ابو العُبَیْدَیْن‘‘ ان کا نام ’’معاویہ بن سہرہ‘‘ ہے۔ ج: …مفرد القاب: ۱۔ مفرد القاب والے صحابہ: حضرتِ ’’سَفِیْنَہ۔‘‘ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہیں جن کا نام ’’مہران‘‘ ہے۔
[1] مولف موصوف نے یہ اصطلاحی تعریف بیان کی ہے جب کہ لغوی تعریف یہ ہے کہ ’’مفردات‘‘ ’’مفرد‘‘ کی جمع ہے اور یہ ’’الاِفْرَاد‘‘ مصدر سے اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ جس کا معنی اکیلا اور تنہا ہے۔ یعنی کسی شخص کا ایسا نام یا کنیت وغیرہ کا ہونا جو صرف اسی کا ہو اور نام و کنیت وغیرہ کے ساتھ وہ اکیلا ہو کوئی دوسرا اس نام میں اس کے ساتھ شریک نہ ہو۔