کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 284
رہیں ۔ (کیوں کہ مبہم کی معرفت سے ہمیں یہ معلوم ہو جائے گا کہ جس شخص کی یہ منقصت اور برائی بیان ہوئی ہے وہ کوئی صحابی نہیں بلکہ کوئی اور ہے)۔
۳۔ مبہم کی معرفت کیوں کر حاصل ہوتی ہے؟:
(سند یا متن میں مذکور مبہم شخص کو) دو میں سے ایک بات کے ذریعے پہچانا اور جانا جاسکتا ہے۔ جو یہ ہیں :
الف: …کسی دوسری روایت میں اس کا نام (صراحۃً) آیا ہو۔
ب:… اصحابِ سِیَر (وتاریخ) کی تنصیص (و تصریح کہ وہ صراحۃً مبھم شخص کا نام لیں ) اور یہی اکثر و بیشتر ہوتا ہے۔
۴۔ مبہم کی اقسام:
ابہام کی شدت اور عدمِ شدت کے اعتبار سے (حضرات محدثین نے) مبہم کی چار قسمیں (بیان کی) ہیں ۔ ہم سب سے پہلے اس قسم کو بیان کرتے ہیں جس میں ابہام سب سے زیادہ ہوتا ہے:
الف: …مرد یا عورت کا ابہام: [1]جیسے حضرتِ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آتا ہے، ’’اَنَّ رَجُلًا‘‘ قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اَلْحَجُّ کُلَّ عَامٍ؟‘‘ ایک آدمی نے (حج کے موقع پر) خدمتِ رسالت میں عرض کیا، ’’اے اللہ کے رسول! (کیا یہ) حج (ہم پر) ہر سال (فرض) ہے؟‘‘
(محدثین نے صراحت کی ہے کہ) یہ ’’رجل‘‘ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ ‘‘تھے۔
ب: …ابن یا بنت کا ابہام:(کہ ان دونوں لفظوں میں پایا جانے والا ابہام پہلی قسم سے کم ہے) اور ’’بھائی اور بہن‘‘ ’’بھتیجا اور بھانجا‘‘ اور ’’بھتیجی اور بھانجی‘‘ کا ابہام بھی (ابہام کی شدت کے اعتبار سے) اس (دوسری قسم) کے ساتھ ملحق ہوتا ہے۔
جیسے ام عطیّہ رضی اللہ عنہا کی وہ روایت جس میں جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ’’بنت‘‘ کو پانی اور بیری کے ساتھ غسلِ وفات دینے کا ذکر ہے کہ یہ (مذکورہ مبہم ’’بنت‘‘) ’’سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ‘‘ ہیں ۔
ج: …چچا اور پھوپھی کا ابہام: (اور اس میں ابہام کی شدّت گزشتہ دونوں قسموں سے کم ہوتی ہے) اور ماموں اور خالہ اور چچا زاد اور پھوپھی زاد بھائی اور بہن اور ماموں زاد اور خالہ زاد بھائی اور بہن کا ابہام بھی (ابہام کی شدت کی اعتبار سے) اس (تیسری قسم) کے ساتھ ملحق ہوتا ہے۔
[1] یاد رہے کہ اس عنوان کا یہ مطلب نہیں کہ مذکورہ مبہم مرد ہے یا عورت بلکہ مطلب یہ ہے کہ جہاں کسی مبہم کی تعبیر لفظ ’’رجل‘‘ یا لفظ ’’امراۃ‘‘ سے ہو تو ان لفظوں کے عموم کی وجہ سے ان میں ابہام بھی ازحد ہوتا ہے کہ مثلاً ’’رجل‘‘ سے نہ جانے کون سا ’’رجل‘‘ مراد ہے اور ’’امراہ ‘‘ سے نہ جانے کون سی عورت مراد ہے۔ اسی لیے بندہ عاجز مترجم نے اس عنوان کا ترجمہ ’’مرد یا عورت کا ابہام‘‘ سے کیا ہے ناکہ ’’ مرد یا عورت میں ابہام‘‘سے اور اسی پر اگلی اقسا م کو بھی قیاس کر لیا جائے۔ فافہم وتدبر‘‘