کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 283
۴۔ مہمل اور مبھم میں فرق: (علوم الحدیث کی) ان دونوں (انواع) میں فرق یہ ہے کہ مہمل میں راوی تو (ضرور) مذکور ہوتا بس اس کی تعیین (مذکور) نہیں ہوتی جس کی بنا پر ’’تعیین‘‘ مشتبہ ہو جاتی ہے۔ جب کہ مبہم میں سرے سے راوی کا نام ہی مذکور نہیں ہوتا (جس کی تفصیل آگے مبھمات کے بیان میں آرہی ہے)۔ ۵۔ مہمل پر مشہور تصانیف: (اس موضوع پر بھی) خطیب بغدادی (ہی فائق رہے ہیں کہ ان) کی کتاب ’’المُکْمَل فی بیان المہمل‘‘ ہے (جو تشنگانِ علوم الحدیث کی سیرابی کا کافی سامان لیے ہوئے ہے)۔ ۸… معرفت مُبْہَمَات ۱۔ مبہمات کی تعریف: الف: …لغوی تعریف: لفظ ’’مبہمات‘‘ یہ ’’مبہم‘‘ کی جمع ہے جو ’’الابھام‘‘ مصدر سے اسمِ مفعول کا صیغہ ہے۔ (جس کا معنی پوشیدگی، اغلاق اور پیچیدگی ہے۔ اور مُبہَم کا معنی پوشیدہ اور مُغْلَق ہے) اور یہ ’’ایضاح‘‘ کی ضد ہے (جس کا معنی واضح کرنا اور تشریح ووضاحت کرنا ہے)۔ ب: …اصطلاحی تعریف: (محدثین کی اصطلاح میں ) مبہم وہ شحص ہے جس کا حدیث کے متن میں یا اسناد کے رواۃ میں ذکر ہو یا اس کا روایت کے ساتھ کوئی تعلق ہو مگر اس کا نام پوشیدہ (یعنی مبہم) رکھا گیا ہو۔[1] ۲۔ معرفت مبہمات کے فوائد: (اب ابہام یا تو اسناد میں ہوگا یا متن میں ، اس لیے حضراتِ محدثین نے دونوں کے اعتبار سے معرفتِ مبہمات کے فوائد بیان کیے ہیں ۔ ہم ذیل میں ان میں سے دو فوائد ذکر کرتے ہیں جن میں سے ایک کا تعلق اسناد سے اور دوسرے کا تعلق متن سے ہے۔ پہلے اسناد سے متعلقہ فائدہ ملاحظہ ہو کہ اسناد متن سے پہلے ہوتی ہے)۔ الف: …اگر ابہام سند میں ہو: تو اس سے ہمیں راوی کی بابت معرفت حاصل ہوتی ہے کہ ثقہ ہے یا ضعیف ہے تاکہ حدیث پر صحت یا ضعف کا حکم لگایا جاسکے۔ ب: …اور اگر ابہام متن میں ہو: تو اس وقت معرفتِ مبہمات کے متعدد فوائد مستفاد ہوتے ہیں جن میں سرِ فہرست ’’صاحبِ قصّہ‘‘ یا ’’سائل‘‘ کی معرفت کا حاصل ہونا ہے (جن کا مبہم ذکر حدیث میں آیا ہوتا ہے) تاکہ اگر حدیث میں ان صاحب کی کوئی فضیلت و منقبت مذکور ہے تو ہم وہ جان لیں ۔ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے (کہ حدیث میں کسی نقص کا ذکر ہے) تو مبہم کی معرفت سے ہم (فاضل صحابہ کے ساتھ کسی قسم کے سوئے ظن رکھنے سے محفوظ
[1] دیکھیں ’’علوم الحدیث لا بن الصلاح ص۳۷۵‘‘ (طحّان)