کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 280
اور کتابت) پر دلالت کرتا ہے۔[1]
اور اس (علم کی معرفت اور اس میں کامل دستگاہ حاصل کرنے) کا فائدہ خطا سے بچنا اور اس میں جاپڑنے سے محفوظ رہنا ہے۔
۵۔ مشہور تصانیف:
الف: …’’المؤتلف والمختلف‘‘ : یہ عبدالغنی بن سعید کی تالیف ہے۔
ب: …ابن ماکولا کی ’’الاکمال‘‘ اور اس کا تتمہ ’’ذیل الاکمال‘‘ جو ابوبکر بن نقطہ نے لکھا ہے۔
۶…معرفت متشابہ[2]
۱۔ متشابہ کی تعریف:
الف:… لغوی تعریف: لفظِ متشابہ ’’التَّشَابُہُ مصدر سے اسمِ فاعل کا صیغہ ہے جس کا معنی ’’تماثل‘‘ یعنی دو چیزوں کا یکساں ہونا ہے (تو متشابہ کا معنی ’’کسی دوسری چیز جیسا ہونے والا‘‘ ہوا) اور یہاں متشابہ سے مراد ’’ملتبس‘‘ ہے (یعنی مشتبہ ہونے والا) اور اسی سے بعض قرآنی آیات کا نام ’’متشابہ‘‘ رکھا گیا ہے۔ یعنی وہ آیات جن کا معنی مخاطب پر مشتبہ ہو گیا ہو (اور اسے ان آیات کا معنی سمجھنے میں دشواری پیش آرہی ہو)۔
ب: …اصطلاحی تعریف: (محدثین کی اصطلاح میں ’’متشابہ‘‘ کی تعریف یہ ہے) کہ (خود) رواۃ کے اسماء تو کتابت اور تلفظ میں یکساں ہوں مگر ان کے آباء کے اسماء تلفظ میں مختلف جب کہ کتابت میں متفق ہوں یا پھر صورت اس کے برعکس ہو۔[3]
۲۔ متشابہ کی مثالیں :
الف :… (وہ مثال جس میں رواۃ کے اسماء تلفظ اور کتابت دونوں میں متفق جب کہ ان کے آباء کے اسماء کتابت میں متفق مگر تلفظ میں مختلف ہوں اور یہاں اختلاف کا مرجع اعراب ہو، جیسے) ’’محمد بن عُقَیل‘‘ اور ’’محمد بن عَقِیْل‘‘ کہ پہلا لفظ عین کے ضم اور دوسرا عین کے فتح کے ساتھ ہے۔ یہاں رواۃ کے اسماء تو متفق ہیں مگر آباء کے اسماء مختلف ہیں (اور یہ متشابہ کی پہلی قسم کی مثال ہے)۔
ب: …’’شُرَیح بن نُعمان‘‘ اور ’’سُرَیج بن نُعمان‘‘ کہ یہاں رواۃ کے اسماء مختلف ہیں (اور اختلاف کا
[1] دیکھیں : نخبۃ الفکر ص۶۸ (طحّان)
[2] دراصل یہ گزشتہ دو اقسام ’’المتفق والمفترق‘‘ اور ’’المؤتلف والمختلف‘‘ سے مرکب ہے۔ دیکھیں ’’علوم الحدیث لا بن الصلاح ص۳۶۵۔(طحّان)
[3] وہ یوں کہ رواۃ کے اسماء تو بولنے میں مختلف ہوں (گو کتابت میں متفق ہوں ) مگر رواۃ کے آباء کے اسماء تلفظ اور کتابت دونوں میں متفق ہوں ۔ (طحّان)