کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 279
۲۔ مؤتلف و مختلف کی مثالیں : الف: …(جیسے لفظِ) ’’سَلَام‘‘ اور سَلَّام ہے کہ پہلا لفظ لام کی تخفیف اور دوسرا لفظ لام کی تشدید کے ساتھ ہے۔ (کہ اگرچہ لکھنے میں یہ دونوں لفظ یکساں ہیں مگر پڑھنے میں مختلف ہیں اور ان میں اختلاف کا مرجع شکل یعنی اعراب ہے)۔ ب: …’’مِسْوَر‘‘ اور ’’مُسَوَّر‘‘ کہ پہلا لفظ میم کے کسر، سین کے سکون اور واو کی تخفیف کے ساتھ ہے جب کہ دوسرا لفظ میم کے ضمہ، سین کی حرکت اور واو کی تشدید کے ساتھ ہے (اور لکھنے میں یہ دونوں لفظ بھی ایک ہیں جب کہ پڑھنے میں مختلف ہیں اور اختلاف کا مرجع یہاں بھی اعراب ہے)۔ ج: …لفظ ’’بَزَّاز‘‘ اور ’’بَزَّار‘‘ کے پہلے لفظ کے آخر میں زا ہے، جب کہ دوسرے لفظ کے آخر میں را ہے (اور یہاں اختلاف کا مرجع ’’نقطہ‘‘ ہے اور پہلی دونوں مثالیں ناموں کی جب کہ تیسری مثال لقب کی ہے) ۔[1] د: … ثَوْرِیُّ اور تَوَّزِی کہ پہلا لفظ ثا اور را کے ساتھ ہے، جب کہ دوسرا تا اور زا کے ساتھ ہے (یہاں اختلاف کا مرجع نقطے اور اعراب دونوں ہیں ۔ اور یہ نسبت کی مثال ہے کہ ثور اور توّز دو قبیلوں کے نام ہیں ) ۳۔ کیا ائتلاف و اختلاف کی معرفت کا کوئی ضابطہ اور قاعدہ بھی ہے؟: (اس بابت دو اقوال ہیں ، جن کی تفصیل ذیل میں درج کی جاتی ہے): الف: …اکثر الفاظ (کی معرفت) کا ان کے کثرت کے ساتھ پھیل جانے کی وجہ سے کوئی ضابطہ نہیں ، انہیں یعنی ان میں سے ہر ایک نام کو الگ الگ حفظ اور ضبط کرکے پہچانا جاتا ہے۔ ب: …ان میں بعض الفاظ کسی ضابطہ کے تحت آتے ہیں اور ایسے الفاظ کی دو قسمیں ہیں : ۱۔ وہ الفاظ جن کا کسی خاص کتاب یا خاص کتب کے اعتبار سے ایک ضابطہ ہو، اس کو مثال سے یوں سمجھئے، جیسے یہ کہا جائے کہ لفظ ’’یَسَار‘‘ صحیحین اور موطا میں جہاں کہیں بھی آئے گا یائے مثناۃ (دو نقطوں والی یا) اور سین مہملہ (بے نقطہ) کے ساتھ آئے گا سوائے لفظِ محمد بن ’’بَشَّار‘‘ کے کہ یہاں ایک نقطہ والی با اور بعد میں تین نقطوں والی شین ہے۔ ۲۔ بعض الفاظ وہ ہیں جن کا کسی خاص کتاب یا کسی خاص کتب کے اعتبار سے کوئی ضابطہ نہیں بلکہ ایک عمومی ضابطہ ہے مثلاً یہ کہا جائے کہ سوائے پانچ ناموں کے سلَّام ہر جگہ مشدد پڑھا جائے گا، پھر وہ پانچ نام گنوا دیئے جائیں (جن میں ’’سَلَام‘‘ کی لام غیر مشدّد ہو)۔ ۴۔ مؤتلف و مختلف کی اہمیت اور اس کے فوائد: ’’علوم الحدیث‘‘ کی اس نوع کی معرفت ’’علم اسماء الرجال‘‘ میں بے حد اہمیت کی حاصل ہے اور علی بن مدینی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ، ’’(احادیث کے متن و اسناد میں ) سب سے زیادہ تصحیف ’’اسماء‘‘ میں واقع ہوتی ہے، کیوں کہ ناموں (کی معرفت و تصحیح) میں نہ تو قیاس کا کوئی دخل ہوتا ہے اور نہ سیاق و سباق ہی اس (کے تلفظ اور اعراب
[1] کیوں کہ بزاز پارچہ فرش یعنی " Cloth Merchant" کو اور بزار بیج فروش کو کہتے ہیں (القاموس الوحید ص ۱۶۴ کالم نمبر ۱)