کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 277
اور اسی میں سے یہ (صورتیں ) بھی ہیں کہ رواۃ کے نام اور کنیتیں بھی ایک ہوں یا ان کے نام اور ان کی نسبتیں بھی ایک ہوں وغیرہ وغیرہ۔[1] (اب رواۃ کے ناموں اور ان کے آباء کے ناموں میں اشتراک کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں جن کو ذیل کی مثالوں میں بیان کیا جاتا ہے): ۲۔ متفق و مفترق کی مثالیں : الف:… (صرف راوی اور اس کے والد کے نام میں اتفاق ہو، جب کہ دونوں راوی الگ الگ اشخاص ہوں ، جیسے) ’’خلیل بن احمد‘‘ کہ یہ چھ اشخاص ہیں جن سب کا یہ مشترکہ نام ہے، اور ان چھ میں سب سے پہلے (مشہور نحوی امام) سیبویہ کے شیخ ہیں (کہ ان کا نام خلیل بن احمد ہے)۔ ب: …(راوی، اس کے باپ اور دادا کا نام ایک ہو، جیسے) ’’احمد بن جعفر بن حمدان‘‘ کہ اس نام کے چار اشخاص تھے اور (لطف کی بات یہ ہے کہ یہ چاروں ) ایک زمانہ میں تھے۔ ج: …’’عمر بن خطاب‘‘[2]کہ اس نام کے چھ اشخاص ہیں ۔[3] ۳۔ اس فن کی اہمیت اور فائدہ: علوم الحدیث کی اس نوع کی معرفت حاصل کرنا بے حد اہمیت اور ضرورت کی مالک ہے۔ کیوں کہ متعدد اکابر علماء بھی اس نوع سے نابلد ہونے کی وجہ سے ٹھوکر کھا گئے( اور اس میدان یعنی معرفتِ رواۃ میں ان کے قدم ڈگمگا گئے، اسی لیے حضرات محدثین نے اس کی اہمیت پر بے حد زور بھی دیا ہے) اور اس کے متعدد فوائد (بھی بیان کیے) ہیں (جن میں سے چند ایک کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے): الف: …ایک نام میں مشترک چند افراد کو ایک شخص نہ باور کرلیا جائے حالاں کہ وہ افراد کی ایک جماعت ہوتے
[1] صرف نام میں اتفاق پر اشکال ہونا قلیل بھی ہے اور نادر بھی۔ اشکال اس وقت اٹھتا ہے جب یہ اتفاق ایک سے زائد ناموں میں پایا جائے۔ جب کہ مذکورہ تعریف بھی ایک سے زیادہ ناموں میں اتفاق کی بابت ہے۔ جس کی مثالیں ’’مطولات‘‘ میں مذکور ہیں ۔ میرے خیال میں ’’علوم الحدیث‘‘ کی یہ نوع ’’مہمل‘‘ کے زیادہ قریب ہے۔ (جس کا بیان آگے آرہا ہے) (طحّان) [2] مولف موصوف کی اس مثال میں معنوی تکرار ہے کہ اب وہ مثال پیش کرنی چاہیے تھی جس میں راوی، باپ دادا اور پڑدادا کا نام ایک ہو۔ لیکن مولف موصوف نے یہ مثال اپنے نزدیک دلچسپ ہونے کی وجہ سے پیش کی ہے۔ جیسا کہ وہ خود حاشیہ میں بیان کر رہے ہیں حالاں کہ اسماء میں اتفاق کی تعداد سترہ تک گئی ہے۔ دوسرے مولف موصوف نے راویوں اور ان کی کنیّتوں اور نسبتوں میں اتفاق کی امثلہ پیش نہیں کیں ۔ تیسرے اتفاق کی متعدد اور صورتیں بھی ہیں جن میں سے ایک صورت یہ بھی کہ خود راوی، اس کے والد اور اس کے دادا تک کا نام ایک ہو۔ غرض ان تفصیلات کو مطولات میں دیکھا جاسکتا ہے اور اس کی قدرے تفصیل ’’علوم الحدیث، ص: ۲۴۲‘‘ میں بھی ہے۔ [3] یہ بے حد دلچسپ مثال ہے جو میں نے خطیب رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور زمانہ کتاب ’’المتفق والمفترق‘‘ میں دیکھی ہے۔ اور اس کتاب میں نام میں مشترک رواۃ کی تعداد سترہ اشخاص تک گنوائی گئی ہے(کہ ایک نام ایسا بھی ہے جو سترہ مختلف رواۃ کا ہے) (طحّان)