کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 275
۳… معرفتِ برادران وخواہران
یعنی بھائی بہنوں کی معرفت
۱۔ تمہید:
(علوم الحدیث کی انواع سے متعلقہ) یہ علم حضرات محدثین کے ان معارف میں سے ہے جن کی طرف انہوں نے (خصوصی) توجہ دی اور اس موضوع پر مستقل کتب تصنیف کیں ۔ یہ (علم دراصل) ہر طبقہ کے رواۃ کے بھائی بہنوں کی معرفت (سے متعلق) ہے[1] اور اس موضوع پر الگ سے تحقیق کرنا اور مستقل کتاب لکھنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرات محدثین نے رواۃ کی بابت کس قدر اہتمام سے کام لیا اور ان کے انساب اور بھائی بہنوں تک کے احوال کی معرفت میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا۔ جیسا کہ آئندہ انواع (کے بیان) میں آرہا ہے۔
۲۔ برادران وخواہران کی معرفت کے فوائد:
(محدثین نے ’’علوم الحدیث‘‘ کی اس نوع کے متعدد فوائد بیان کیے ہیں جن میں سے) ایک فائدہ یہ ہے کہ:
جہاں ایک راوی اور دوسرے راوی کے باپ کا نام مشترک ہو مگر وہ آپس میں بھائی نہ ہوں تو انہیں (محض والد کے نام میں مشترک ہونے کی بنا پر) ایک دوسرے کا بھائی نہ گمان کرلیا جائے۔(اس کی نہایت دلچسپ) مثال ’’عبداللہ بن دینار‘‘ اور ’’عمرو بن دینار‘‘ ہیں ۔ اب جس شخص کو (اس علم سے) واقفیت نہیں وہ (محض باپ کے نام سے مشترک ہونے کی وجہ سے) انہیں ایک دوسرے کا بھائی سمجھ لے گا۔ حالاں کہ یہ ایک دوسرے کے بھائی نہیں ۔ اگرچہ دونوں کے والد کا نام ایک (یعنی ’’دینار‘‘) ہے۔
۳۔ معرفت برادران و خواہران کی مثالیں :
(رواۃ حدیث میں سے کم از کم دو اور بڑی تعداد تک لوگ آپس میں بھائی بھائی ہو سکتے ہیں ۔ آئیے ذیل میں اس کی علی الترتیب مثالیں پڑھتے ہیں ):
الف: …طبقہء صحابہ میں (کم از کم) دو بھائیوں کی مثال: جیسے حضرتِ عمر اور حضرتِ زید یہ دونوں خطاب کے بیٹے ہیں ۔
ب: …طبقۂ صحابہ میں تین بھائیوں کی مثال: حضرت علی، حضرت جعفر اور حضرت عقیل کہ تینوں ابو طالب کے بیٹے ہیں ۔
[1] تاکہ ہر طبقہ کے رواۃ میں جو لوگ آپس میں بھائی بھائی یا بھائی بہن ہیں ان سے واقفیّت حاصل ہو۔ (علوم الحدیث، ص: ۳۴۰ بتصرفٍ یسیر)