کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 27
علم المصطلح میں لکھی جانے والی مشہور تصانیف کا تعارف ۱۔اَلْمُحَدَّثُ الْفَاصِلُ بَیْنَ الرَّاوِیْ وَ الْوَاعِی: یہ ’’قاضی ابو محمد حسن بن عبدالرحمن بن خلاّد رامَھُرْمُزِی‘‘ متوفی ۳۶۰ھ کی تصنیف لطیف ہے۔ مگر یہ کتاب ’’علم المصطلح‘‘ کی جملہ ابحاث کی جامع نہیں اور (یہ بات بدیہی بھی ہے کیوں کہ) کسی بھی علم میں کسی ابتدائی کتاب کو تصنیف کرنے والے ہر مصنف کا اکثر یہی حال ہوتا ہے۔ ۲۔ مَعْرِفَۃُ عُلُوْمِ الْحَدِیْثِ: اس کے مصنف ’’ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ الحاکم نیشا پوری رحمہ اللہ متوفی ۴۰۵ھ ہیں ، لیکن انہوں نے اس کتاب کی نہ تو ابحاث کو مہذب کیا ہے اور نہ ان ابحاث کو مناسب فنی ترتیب کے سانچے میں ہی ڈھالا ہے (اس لیے اس کتاب کی ترتیب و تہذیب قدرے غیر مناسب اور غیر مفید ہے)۔ ۳۔ اَلْمُسْتَخْرَجُ عَلَی مَعْرِفَۃِ عُلُوْمِ الْحَدِیْثِ: اسے ’’ابو نعیم احمد بن عبداللہ اصبہانی‘‘ متوفی ۴۳۰ھ نے زیور تصنیف سے آراستہ کیا ہے۔ مصنف موصوف نے دراصل اس کتاب میں اُن مباحث و علوم کا اور اس فن کے اُن قواعد و اصول کا استدراک اور اضافہ کیا ہے جو حاکم رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘ میں ذکر نہ کر سکے تھے۔ البتہ فاضل مصنف بھی اپنی اس کتاب میں ایسی متعدد باتیں ترک کر گئے جن کا استدراک ایک ناقد کے لیے ممکن ہوتا ہے۔ ۴۔ اَلکِفَایَۃُ فِیْ عِلْمِ الرِّاوَایَۃِ: یہ مشہور مؤرخ ، نقاد، محقق اور مبصّر ’’ابوبکر احمد بن علی بن ثابت المعروف بہ ’’الخطیب البغدادی‘‘ متوفی ۴۶۳ھ کی مایہ ناز تصنیف ہے۔ یہ کتاب اس فن کے جملہ مسائل اور روایت کے قواعد کے بیان کو جامع ہے۔ اس کتاب کو اس فن کا سب سے جلیل القدر ماخذ تسلیم کیا جاتا ہے۔ ۵۔ اَلْجَامِعُ لِاَخْلَاقِ الرَّاوِیْ وَ آدَابِ السَّامِعِ: یہ بھی ’’خطیب بغدادی‘‘کی ہی تصنیف لطیف ہے۔ اس کتاب میں آدابِ روایت پر بحث کی گئی ہے۔ جیسا کہ خود کتاب کے نام سے عیاں ہے، یہ کتاب اپنے موضوع میں بے مثل اور یکتائے روزگار ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت قیمتی