کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 269
۱۔ حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ : آپ نے ۵۳۷۴ احادیث روایت کی ہیں اور تین سو سے زائد لوگوں نے آپ سے روایت کی ہے۔ ۲۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ : آپ نے ۲۶۳۰ احادیث روایت کی ہیں ۔ ۳۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ : آپ نے ۲۲۸۲ احادیث روایت کی ہیں ۔ ۴۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا : آپ نے ۲۲۱۰ احادیث بیان کی ہیں ۔ ۵۔ حضرتِ ابن عباس رضی اللہ عنہ : آپ نے ۱۶۶۰ احادیث روایت کی ہیں ۔ ۶۔ حضرتِ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ : آپ نے ۱۵۴۰ احادیث روایت کی ہیں ۔ ۶۔ کثیر الفتاوی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم : ان میں سرِ فہرست حضرتِ ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں جن سے اکثر فتاویٰ منقول ہیں ، ان کے بعد کبار علماء صحابہ رضی اللہ عنہم کا نام آتا ہے(جنھوں نے بہت زیادہ فتاویٰ دیئے) اور بقولِ مسروق ان کی تعداد چھ ہے۔ مسروق کہتے ہیں ، ’’سب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا علم ان چھ پر جاکر ختم (یعنی جمع) ہو جاتا ہے، ’’حضرتِ عمر، حضرت علی، حضرتِ ابی بن کعب، حضرت زید بن ثابت، حضرت ابو درداء اور حضرتِ ابن مسعود رضی اللہ عنہم‘‘، پھر ان چھ کا علم دو پر جاکر ختم ہو جاتا ہے اور یہ دو عظیم المرتبت صحابی حضرتِ علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘ ۷۔ ’’عَبَادِلَہ‘‘ کون ہیں ؟: درحقیقت ’’عبادلہ‘‘ سے حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے وہ لوگ مراد ہیں جن کا نام ’’عبداللہ‘‘ ہے، اور اس نام کے صحابہ کی تعداد تقریباً تین سو ہے۔ مگر یہاں ان میں سے صرف چار مراد ہیں جن میں سے ہر ایک کا نام عبداللہ ہے اور وہ چار یہ ہیں : الف: …حضرتِ عبداللہ بن عمر ب: …حضرت عبداللہ بن عباس ج: …حضرتِ عبداللہ بن زبیر د: …اور حضرتِ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھم (عبداللہ نامی یہ سب حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں ) ان چاروں کو یہ امتیازی مقام اس لیے حاصل ہے کہ یہ ان علماءِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہیں جنہوں نے لمبی عمر پائی۔ یہاں تک لوگ ان کے علم کے محتاج ہو گئے (اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کے سب علوم کے حصول کے لیے ایک دنیا نے ان کے دروازے پر دستک دی اور ان کے آگے زانوئے تلمذ طے کیا) چناں چہ انہیں یہ امتیاز اور شہرت حاصل ہے۔ پس جب یہ چاروں احباب کسی ایک فتویٰ پر اجماع کر لیتے ہیں تو (اس مسئلہ اور فتویٰ کے بارے میں ) کہا جاتا ہے، ’’یہ عبادلہ کا قول ہے۔‘‘