کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 262
’’دیباچہ‘‘یعنی رخسار سے مشتق ہے کہ جیسے چہرے کے دو رخسار ہوتے ہیں ایسے ہی اس حدیث کو بھی دونوں قرین ایک دوسرے سے روایت کرتے ہیں ) اب گویا کہ اس حدیث کا مُدَبَّج نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس میں راوی اور مروی عنہ دونوں (ایک دوسرے سے روایت کرنے میں ) مساوی ہوتے ہیں جیسے (چہرے کے) دونوں رخسار مساوی اور برابر ہوتے ہیں ۔ ب: …اصطلاحی تعریف: (محدثین کی اصطلاح میں حدیث مُدَبَّج) یہ دو قرین میں سے ہر ایک کا دوسرے سے حدیث کو روایت کرنا ہے۔[1] ۴۔ حدیث مُدَبَّج کی مثالیں : (محدثین نے اس کی تین اقسام بیان کی ہیں جو طبقات کے اعتبار سے ہیں اس لیے اس کی مثالیں بھی تین قسم کی ہوں گی، جو یہ ہیں ): الف: …(پہلی قسم) حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں حدیث مُدَبَّج: مثال: حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنا۔ ب: …(دوسری قسم) حضرات تابعین میں حدیث مُدَبَّج: مثال: امام زہری رحمہ اللہ کی حضرت عمر بن عبدالعزیز سے، اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی امام زہری رحمہ اللہ سے روایت۔ ج: …(تیسری قسم) حضرات تبع تابعین میں حدیث مُدَبَّج:مثال: امام مالک رحمہ اللہ کا امام او زاعی رحمہ اللہ سے اور امام اوزاعی رحمہ اللہ کا امام مالک رحمہ اللہ سے حدیث روایت کرنا۔ ۵۔ حدیث مُدَبَّج کے فوائد: (محدثین حضرات نے اس کے متعدد فوائد بیان کیے ہیں ، جن میں سے چند درج ذیل ہیں ) : الف: …اسناد میں زیادتی اور اضافہ کا وہم نہ کیا جائے۔[2] ب: …اور یہ وہم نہ کیا جائے کہ یہاں ’’عن‘‘ کو ’’واو‘‘ سے بدل دیا گیا ہے۔[3] (یعنی واو کی جگہ اسناد میں عن لکھ دیا ہے)۔
[1] علوم الحدیث لا بن الصلاح ص۳۰۹ (طحّان) اور بظاہر حدیث مُدَبَّج روایتِ اَقران کی ایک صورت ہے (علوم الحدیث، ص: ۳۰۱) [2] کیوں کہ اصل یہ ہے کہ شاگرد اپنے شیخ سے روایت کرے (ناکہ دو قرین اور مصاحب ایک دوسرے سے روایت کریں ) لہٰذا جب ایک راوی اپنے قرین سے روایت کرے گا تو ممکن ہے کہ جسے اس نوع پر عبور حاصل نہ ہو، یہ گمان کر بیٹھے کہ مروی عنہ کا راوی کا قرین ہونا کاتب کا اضافہ ہے۔ (کہ یہاں راوی کا قرین نہیں بلکہ اس کا شیخ مذکور ہونا چاہیے تھا مگر کاتب نے غلطی سے یہ اضافہ کردیا) ۔(طحّان) [3] یعنی اس اسناد کو پڑھنے یا سننے والا یہ گمان نہ کر بیٹھے کہ اصل روایت تو ’’حدثنا فلان و فلان‘‘ تھی (کہ یہ تو دونوں قرین ہیں بھلا یہ ایک دوسرے سے کیسے روایت کر سکتے ہیں ) مگر قاری یا سامع سے خطا کا ارتکاب ہوا اور اس نے اس اسناد کو ’’حدثنا فلان عن فلان‘‘ پڑھ دیا (حالاں کہ اصل بات یہی تھی کہ یہاں ایک قرین نے دوسرے قرین سے روایت کیا تھا۔ لہٰذا اس جگہ ’’عن‘‘ پڑھ کر یہ وہم نہ کیا جائے کہ یہاں راوی نے لکھنا تو واو تھا مگر غلطی سے عن لکھ دیا) (طحّان) غرض اس فن سے واقفیّت ہوگی تو اس قسم کا دھوکا نہ ہوگا (علوم الحدیث، ص: ۳۰۲)