کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 26
تھے) لیکن جب فتنوں نے سر اٹھایا (اور نفس پرستی کا دور دورہ ہونے لگا) تو (اب اگر کوئی شخص کوئی حدیث یا خبر سناتا تو) یہ حضرات کہتے (پہلے) ہمیں (اپنی خبر کے) رجال کے نام بتلاؤ۔ پس دیکھا جاتا کہ اگر تو اس کے ناقل معتمد علیہ اہل سنت اور اہل علم ہوتے تو اس روایت اور خبر کو لے لیا جاتا اور اگر وہ اہل بدعت ہوتے تو ان کی خبر کو چھوڑ دیا جاتا۔‘‘ [1] جب یہ بات طے پا گئی کہ کسی خبر کو اس کی سند کی معرفت( اور اس کے رجال کے احوال کی معرفت) کے بغیر قبول نہ کیا جائے گا تو اس بناء پر جرح و تعدیل ناقلین حدیث (کے کردار، حالاتِ زندگی، ان کے علمی معیار و مرتبہ اور اخلاق و کردار) پر بحث و کلام، اسانیدِ اخبار کے متصل یا منقطع ہونے کی معرفت اور علل خَفِیّہ کی معرفت کا علم معرضِ وجود میں آیا اور روایانِ حدیث پر کلام کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا مگر کم، کیوں کہ (ابھی زمانہ خیر کا تھا اور لوگوں پر خیر غالب تھی، اسی لیے) مجروح راویوں کی تعداد (بھی) کم تھی۔ پھر علماء نے اس علم و فن میں مزید وسعت سے کام لیا (اور اس کے علمی دائرہ کو مزید پھیلایا) جس کے نتیجہ میں حدیث سے متعلقہ بے شمار علمی مباحث وجود میں آئیں ۔ چناں چہ اب حدیث کے ضبط، اس کے تحمّل وادا کی کیفیّت، ناسخ و منسوخ کی معرفت اور حدیث کی غرابت وغیرہ کی علمی مباحث کا آغاز ہوا۔ لیکن یاد رہے کہ ابھی تک علمائے کرام میں نقل حدیث کا رواج یادداشت کے بل بوتے پر اور زبانی تھا (ناکہ تحریری)۔ پھر حالات نے نئی کروٹ لی اور زمانہ نے نیا رنگ بدلا اور لوگوں کے بدلتے اخلاق و کردار نے حفاظتِ حدیث کی ایک نئی ضرورت کا شدت کے ساتھ احساس دلایا (اور وہ تھا احادیث کو ضبط تحریر میں لانا اور انہیں مسطور کرنا) چناں چہ اب ان علوم کو لکھا جانے لگا۔ (اور انہیں ضبط تحریر میں لانے کی نوبت آئی) مگر (مستقل کتابوں میں نہیں بلکہ) متفرق و مختلف کتابوں میں جن (میں صرف ایک ہی نوع کے علم کے متعلقہ مباحث اور علمی مواد نہ ہوتا تھا بلکہ ان ) میں دوسرے علوم بھی مذکور ہوتے تھے مثلاً علم الاصول ، علم الفقہ اور علم الحدیث وغیرہ( غرض علوم احادیث اور ان کی متعلقہ مباحث کو مستقل کتابوں میں نہیں ، بلکہ متفرق دوسرے علوم کی کتابوں میں لکھا جانے لگا) جیسے امام شافعی رحمہ اللہ کی دو کتب ’’الرسالہ‘‘ اور ’’الامّ‘‘ اور اخیر زمانہ میں جب علوم پختہ اور مستحکم ہو گئے اور (ہر فن کی) اصطلاحات مقرر (اور وضع) ہو گئیں اور ہر فن ایک جداگانہ حیثیت اختیار کر گیا، یہ چوتھی صدی ہجری (کی علمی ہیئت) کا قصہ ہے، تو علمائے حدیث نے ’’علم المصطلح‘‘ کو بھی ایک مستقل کتاب میں جگہ دی اور اس فن میں سب سے پہلے ’’قاضی ابو محمد حسن بن عبدالرحمن بن خلاّد رَامَھُرْمُزی‘‘ متوفی ۳۶۰ھ نے ’’المحدث الفاصِلُ بین الراوی و الواعی‘‘ کے نام سے ایک مستقل کتاب تصنیف کی۔ ان شاء اللہ عنقریب میں قاضی موصوف رحمہ اللہ کی پہلی مستقل تصنیف سے لے کر ہمارے آج کے اس زمانہ تک اس فن میں لکھی جانے والی مشہور تصنیفات کا ذکر کروں گا۔
[1] مقدمۃ صحیح مسلم، ص۱۵