کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 258
الف: …پہلی قسم یہ ہے کہ راوی مروی عنہ سے صرف عمر میں بڑا اور طبقہ میں مقدم ہو[1] (مگر حفظ اور علم میں دونوں مساوی ہوں ) ۔ ب: …دوسری قسم یہ ہے کہ راوی مروی عنہ سے صرف مرتبہ میں بڑا ہو ناکہ عمر میں بھی۔ جیسے ایک حافظ (حدیث) اور عالم راوی کسی غیر حافظ مگر بڑی عمر کے شیخ سے روایت کرے۔ مثلاً امام مالک رحمہ اللہ کا عبداللہ بن دینار سے روایت کرنا۔[2] ج: …اور تیسری (صورت اور) قسم یہ ہے کہ راوی عمر اور مرتبہ دونوں میں مروی عنہ سے بڑا ہو کہ وہ مروی عنہ سے عمر میں بھی بڑا ہو اور اس سے زیادہ علم والا بھی ہو (جیسے) مثلاً برقانی کی خطیب سے روایت۔[3] ۴۔ روایۃ الاکابر عن الاصاغر کی چند مزید مثالیں : الف: …صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تابعین سے روایت کرنا: جیسے حضراتِ عبادلہ رضی اللہ عنہ (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرتِ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ) وغیرہم کا (تابعین سے جیسے) کعب احبار سے روایت کرنا۔[4] ب: …تابعین کا تبع تابعین سے روایت کرنا:…جیسے یحییٰ بن سعید انصاری رحمہ اللہ (تابعی) کا امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کرنا (کہ امام مالک رحمہ اللہ تبع تابعی تھے)۔ ۵۔ روایۃ الاکابر عن الاصاغر کے فوائد: (حضرات محدثین نے اس کے متعد دفوائد گنوائے ہیں جن میں سے چند ایک کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے) الف:… اس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ (ہمیشہ) مروی عنہ (یعنی استاد اور شیخ) راوی (یعنی شاگرد) سے افضل اور عمر میں بڑا ہی ہوگا[5] کیوں کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ ب:… دوسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ نہ گمان کر لیا جائے کہ اس سند میں ’’قلب‘‘ ہے کہ عام طور پر اصاغر ہی اکابر سے
[1] ناکہ مرتبۂ علمی اور حفظ حدیث میں بھی بڑا ہو۔ [2] کیوں کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام اور حافظ تھے جب کہ عبداللہ بن دینار صرف (ان کے) شیخ اور راویء حدیث تھے۔ اگرچہ وہ عمر میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے بڑے تھے۔ (طحّان) [3] کیوں کہ برقانی خطیب سے عمر میں بھی بڑے تھے اور علمی رتبہ میں بھی ان سے بڑے تھے۔ کیوں کہ برقانی خطیب کے شیخ اور معلّم بھی تھے اور ان سے علم میں بھی فائق تھے۔ (طحّان) [4] اسی ضمن میں حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی تابعین سے وہ روایات بھی آتی ہیں جو ان تابعین نے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے حاصل کی تھیں ۔ جیسے بخاری شریف کی حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کی وہ روایت جو وہ مروان بن حکم تابعی سے روایت کرتے ہیں جب کہ مروان وہ روایت حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔(علوم الحدیث، ص: ۲۹۵) [5] اس میں ان اساتذہ اور شیوخ کے لیے مقامِ غور ہے جو اپنے تلامذہ کی لیاقت و استعداد اور علمی ہونہاری کو انا کا مسئلہ سمجھتے ہوئے ان شاگردوں سے پرخاش رکھتے ہیں اور ان سے علمی استفادہ کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں کہ ’’علم مومن کی گم گشتہ متاع ہے، وہ جہاں سے ملے اسے لے لینا علمی دیانت اور علمی مقام و منصب کے شایاں ہے‘‘۔