کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 251
۳۔ مساوات: یہ کسی حدیث کے رجالِ اسناد کی تعداد کا راوی سے لے کر آخر تک، کسی دوسرے مصنف کی ذکر کردہ اسناد کے رجال کی تعداد کے برابر ہونا ہے۔ مساوات کي مثال:… اس کی مثال وہ ہے جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے کہ، ’’جیسے مثلاً امام نسائی ایک حدیث روایت کریں اور اس حدیث کی اسناد میں ان کے اور جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان گیارہ افراد کا واسطہ ہو۔ اب بعینہٖ یہی حدیث ایک دوسری اسناد کے ساتھ بھی ہو۔ جس میں ہمارے اور جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک رواۃ حدیث کی تعداد گیارہ (ہی) ہو تو یوں ہم تعدادِ رجال میں امام نسائی رحمہ اللہ کے برابر ہو جائیں گے۔ ۴۔ مصافحہ: یہ کسی حدیث کے رجالِ اسناد کی تعداد کا راوی سے لیکر آخر تک کسی دوسرے مصنّف کی شاگرد کی اسناد کے رواۃ کی تعداد کے برابر ہونا ہے۔ اور اس روایت کا نام ’’مصافحہ‘‘ اس لیے رکھا گیا ہے کہ دو ملنے والوں میں غالب عادت یہی ہے کہ وہ (پہلے) ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں ۔ د: …کسی راوی کے پہلے وفات پاجانے کے ذریعے علو (یعنی اسناد کا عالی کرنا): (اس کی ذکر کردہ مثال سے ہی اس کی تعریف بھی اخذ کی جاسکتی ہے کہ یہ کسی راوی کی وفات کے پہلے ہو جانے کے ذریعے اپنی اسناد کو عالی کرنا ہے اور اس کو ’’علو بوجہ تقدم وفات الراوی‘‘ بھی کہتے ہیں ) اس کی مثال وہ ہے جو امام نووی رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’جس حدیث کو میں تین واسطوں سے بیہقی سے اور ان کے واسطہ سے حاکم سے نقل کروں ، وہ اس حدیث سے اعلیٰ ہے جس کو میں تین واسطوں سے ابوبکر بن خلف سے اور ان کے واسطے سے حاکم سے نقل کروں کیوں کہ بیہقی نے ابوبکر بن خلف سے پہلے وفات پائی ہے۔‘‘[1] ھ: …تقدم سماع کے ذریعے علو: یعنی شیخ (کے آگے زانوئے تلمذ طے کرکے اس) سے حدیث سننے میں سبقت کرنے(کے ذریعے سند کو عالی کرنا، اور اس کو ’’علو بوجہ تقدم السماع من الشیخ‘‘ کہتے ہیں ) پس جس نے شیخ سے حدیث کی سماعت پہلے کی ہو اس کی اسناد اس شخص سے عالی ہے جس نے اس شیخ سے اس کے بعد حدیث سنی ہے۔ تقدمِ سماع کے ذریعے علوِ اسناد کی مثال:…مثلاً دو آدمی ایک ہی شیخ سے حدیث کی سماعت رکھتے ہوں مگر ایک گزشتہ ساٹھ برسوں سے حدیث کی سماعت کر رہا ہے جب کہ دوسرے کی سماعت صرف چالیس سال سے ہو۔ اب اگرچہ دونوں کی اسناد کے رواۃ کی تعداد برابر ہے مگر پہلا باعتبار اسناد کے دوسرے سے اعلیٰ ہے۔ اور اس کا فائدہ اس شخص کے
[1] التقریب بشرح التدریب ج۲ ص۱۶۸۔ یاد رہے کہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ۴۵۸ھ میں جب کہ ابن خلف نے ۴۸۷ھ میں وفات پائی ہے۔ (طحّان)