کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 25
علمِ مصطلح الحدیث کی ایجاد اور اس پر گزرنے والے مختلف احوال کا مختصر تاریخی جائزہ ایک محقق اور مدقق کے سامنے یہ بات ملحوظ رہتی ہے کہ علمِ روایت اور نقلِ اخبار کی بنیادیں اور اس کے بنیادی ارکان رب تعالیٰ کی ’’کتاب عزیز‘‘ اور ’’سنت نبویہ‘‘ میں موجود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتے ہیں : ﴿یٰٓـاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْا﴾ (الحجرات:۶) ’’مومنو! اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو۔‘‘ اور نبی کریم کا ارشاد مبارک ہے: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو شاد و مسرور رکھے جو ہم سے کچھ سنے اور جیسا سنے ویسا ہی دوسروں تک پہنچادے اس لیے کہ بہت سے وہ لوگ جن تک کوئی بات پہنچائی جائے وہ سننے والے سے زیادہ اس کو محفوظ رکھتے ہیں ۔‘‘[1] اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : ’’اس لیے کہ بہت سے علم کے حاملین ان لوگوں تک علم کی بات پہنچاتے ہیں جو ان سے زیادہ علم اور سمجھ رکھنے والے ہوتے ہیں اور بعض علم و فقاہت کی بات جاننے والے خود فقیہہ نہیں ہوتے۔‘‘[2] اس آیتِ کریمہ اور حدیثِ شریف میں اخبار و احادیث کو لینے میں خوب غوروفکر سے کام لینے، خوب بیدار مغزی کے ساتھ ان کے ضبط کرنے اور یاد کرنے کی کیفیت اور دوسروں تک ان کو پہنچانے میں بڑی باریک بینی سے کام لینے کی بنیاد اور اصولی قواعد مذکور ہیں ۔ یہی وجہ سے کہ رب تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ مبارک کی تعمیل میں حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اخبار و احادیث کے نقل و قبول میں بڑی تحقیق سے کام لیتے تھے، خصوصاً جب انہیں ناقل کی صداقت میں شک ہو جاتا تھا۔ اس بِنا پر اخبار و حدیث کے ردّ و قبول میں ’’اسناد‘‘ اور اس کی اہمیت پر بے حد توجہ دی گئی۔ ’’صحیح مسلم‘‘ کے مقدمہ میں علامہ ابن سیرین کا قول مذکور ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’پہلے حضرات صحابہ و تابعین اسناد کے بارے میں کچھ نہ پوچھتے تھے (اور اس سے مطلق تعرض نہ کرتے
[1] الترمذی۔ کتاب العلم۔ ۱۳۵حدیث رقم ۲۶۵۷وقال عنہ،’’حَسَن صحیح‘‘۔ [2] الترمذی۔ کتاب العلم ۔۱۳۵حدیث رقم ۲۶۵۶۔البتہ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی یہ فرماتے ہیں ’’یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ اس کو ابو داؤد، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔