کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 249
’’نزول‘‘ (پستی، نشیب اور نچان) کی ضد ہے۔ اور ’’نازل‘‘ ’’نزول‘‘ کا اسم فاعل ہے جو ’’علوّ‘‘ کی ضد ہے۔ ب: …اسناد عالی و نازل کی اصطلاحی تعریف: ۱۔ اسنادِ عالی: (محدثین کی اصطلاح میں ) اسناد عالی اس اسناد کو کہتے ہیں جس کے رجال کی تعداد اسی سند کی بہ نسبت کم ہو جس کے ساتھ وہی حدیث زیادہ رجال کے ساتھ وارد ہوئی ہو ۔[1] ۲۔ اسنادِ نازل کی اصطلاحی تعریف: یہ وہ اسناد ہے جس کے رجال کی تعداد اس اسناد کی بہ نسبت زیادہ ہو جس کے ساتھ وہی حدیث کم رجال کے ساتھ وارد ہوئی ہو۔ ۳۔ علوِّ اسناد کی اقسام : علوّ اسناد کی پانچ قسمیں ، جن میں سے ایک کا نام ’’علوِّ مطلق‘‘ ہے جب کہ باقی چار اسانید ’’علوِ نَسَبیّ‘‘ کہلاتی ہیں ۔ یہ پانچ اقسام درج ذیل ہیں : الف:… کسی صحیح اور بے عیب اسناد کے ساتھ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونا علوِ اسناد کی سب سے جلیل القدر قسم ہے جس کو محدثین ’’علوِّ مطلق‘‘ کہتے ہیں۔[2] (اور یہی علوِ مطلق کی تعریف بھی ہے اور صورت بھی دوسرے مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق باقی کی چاروں اقسام ’’علوّ نسبی‘‘[3]کہلائیں گی) ب:… کسی امامِ حدیث کے واسطے سے صحیح اور بے عیب سند کے ساتھ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک قرب خواہ اس میں راوی کے بعد جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک (واسطوں کی) تعداد زیادہ ہی ہو۔ مثلاً جیسے امام اعمش، ابن جریج اور امام مالک رحمہ اللہ وغیرھم (جیسی شخصیات کے واسطے سے قرب اور اس کو ’’علو بوجہ القرب مِنْ اَحَدِ اَئِمَّۃِ الحدیث‘‘ کہتے ہیں ) ج:… صحاح ستہ یا کسی دوسری معتبر و معتمد کتاب کی روایت کی طرف نسبت کے ذریعے قرب (مگر اس میں بھی حدیث کا صحیح اور بے عیب ہونا شرط ہے اور اصطلاحِ محدثین میں اس کو ’’علو بوجہ القرب بالنسبۃ الی روایۃ
[1] یعنی اگر ایک ہی حدیث دو اسناد کے ساتھ وارد ہو تو دونوں میں سے عالی اسناد اس کو کہیں گے جس کے رواۃ کی تعداد بہ نسبت دوسری سند کے کم ہوگی۔ (علوم الحدیث، ص: ۲۸۷) [2] اور یہ سب سے اعلیٰ قسم اس لیے ہے کہ اس میں راوی اور جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان واسطے کم ہوتے ہیں اور واسطے جتنے کم ہوں اسناد اتنی ہی زیادہ معتمد اور معتبر ہوتی ہے۔ مولف موصوف نے اس کی مثال بیان نہیں کی۔ اس کی مثال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی وہ ’’ثلاثیات‘‘ ہیں جن کو انہوں نے دوسری اسناد سے بھی روایت کیا ہے۔ مگر ان میں رواۃ کی تعداد زیادہ ہے۔ اور ’’ثلاثیات‘‘ ان روایات کو کہتے ہیں جن کو صرف تین واسطوں سے جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا جائے۔ (علوم الحدیث، ص: ۲۸۷ مع الحاشیۃ) [3] اور علوِ نسبی کی تعریف یہ ہے کہ کسی خاص شخص یا نسبت کے ذریعے جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرب چاہے۔ راوی کے بعد جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک واسطے زیادہ ہوں ۔ اس کی چار صورتیں ہیں جن کو علی الترتیب بیان کیا جاتا ہے۔ (علوم الحدیث بتصرفٍ ص۲۸۷)