کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 248
فصل اوّل لطائفِ اِسناد کا بیان یہ فصل علومِ حدیث کی سات انواع کے تذکرے پر مشتمل ہے، جو یہ ہیں : (۱) اسنادِ عالی و نازل (۲) المسلسل (۳) روایتِ اکابر عن الاصاغر (۴) روایتِ آباء عن الابناء (۵) روایتِ ابناء عن الآباء (۶) المُدَبَّج اور ’’روایتِ اقران‘‘ (۷) سابق ولاحق ۱…اسنادِ عالی ونازل ۱۔تمہید: اسناد اس امت کی وہ خصوصیت اور طرئہ امتیاز ہے جس میں گزشتہ امتوں میں سے کوئی بھی ان کے ساتھ شریک نہیں ۔ اور اسناد (ایک نہایت محقق، یقینی) کامل (مستحکم) اور معتمد سنت ہے، اور ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ احادیث و اخبار کے نقل (وبیان) میں ’’اسناد‘‘ پر (پورا پورا) اعتماد کرے۔ امام ابن مبارک فرماتے ہیں ، ’’اسناد دین میں سے ہے، اگر ’’اسناد‘‘ نہ ہوتی تو جس کا جو جی چاہتا کہہ دیتا‘‘ اور سفیان ثوری رحمہ اللہ کا قول ہے، ’’اسناد‘‘ ایک مومن کا ہتھیار ہے۔‘‘ (تو جیسے خود ’’اسناد‘‘ ایک کامل اور یقینی سنت ہے) اسی طرح اسناد کے عالی مرتبہ کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا بھی سنت ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، ’’عالی اسناد کی تلاش میں سرگرداں رہنا اسلاف اکابر کی سنت ہے۔‘‘ کیوں کہ حضرتِ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اصحاب کوفہ سے مدینہ کے لیے صرف اس لیے رختِ سفر باندھتے تھے تاکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سیکھیں اور ان سے احادیث کی سماعت کریں ۔ اسی لیے حضرات علماء نے طلبِ حدیث کے لیے اسفار کرنے (اور دور دراز کے بلا دو امصار جانے اور وہاں کے مشائخ سے احادیث لینے) کو مستحب قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی بابت یہ مروی ہے کہ انہوں نے اسناد کے عالی کرنے کے لیے سفر اختیار کیا، جیسے حضرتِ ابو ایوب رضی اللہ عنہ اور حضرتِ جابر رضی اللہ عنہ ۔ ۲۔ اسناد عالی ونازل کی تعریف: الف: …لغوی تعریف: لفظ ’’عالی‘‘ یہ ’’عُلُوٌّ‘‘ مصدر سے اسمِ فاعل کا صیغہ ہے (جس کا معنی بلندی ہے) جو