کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 245
بحث دوم طالبِ حدیث کے آداب ۱۔ مقدمہ: طالب حدیث کے آداب سے مراد وہ بلند آداب اور کریمانہ اخلاق ہیں جن سے ایک طالب علم کو متصف ہونا چاہیے اور جو اس بلند علم کے مناسب ہیں جس کو یہ حاصل کرنے چلا ہے، اور وہ علم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث۔ ان اخلاق و آداب میں سے کچھ تو وہ ہیں جو محدّث اور طالب دونوں کے لیے مشترک ہیں ۔ البتہ کچھ آداب وہ ہیں جو صرف طالب علم میں ہونے چاہئیں ۔ (ذیل میں دونوں قسم کے آداب کو علی الترتیب بیان کیا جاتا ہے) ۲۔وہ آداب جن میں طالب علم ’’محدّث‘‘ کے ساتھ شریک ہوتا ہے: الف: …نیت درست کرنا اورمحض اللہ کی رضا کے لیے علم حاصل کرنا ۔ ب: …طلب حدیث کو دنیاوی اغراض تک پہنچنے کا وسیلہ بنانے سے ازحد گریز کرنا۔ ابو داؤد اور ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے: ’’جس نے ایسا کوئی علم سیکھا جس سے اللہ کی رضامندی مقصود ہوتی ہے مگر اس نے وہ علم صرف کسی دنیاوی مقصد کو پانے کے لیے سیکھا وہ روزِ قیامت جنت کی خوش بو (تک) نہ پائے گا۔‘‘[1] ج: …جن ارشاداتِ عالیہ کو سنا ہے ان پر عمل کرنا۔ ۳۔ وہ آداب جو صرف طالب علم کے ہیں : الف: …احادیث کو ضبط کرنے اور ان کو سمجھنے میں رب تعالیٰ سے توفیق، سیدھی راہ، سہولت و آسانی اور رب ذوالجلال کی مدد مانگے۔ ب: …طلبِ حدیث میں پوری طرح منہمک ہو جائے اور اپنی ساری جان لگادے۔ ج: …حدیث کی سماعت کی ابتداء ان بزرگ اور شیخ سے کرے جن کی سند شہر میں سب سے عالی ہو اور وہ علم اور دین میں سب پر فائق ہو۔ د: …اپنے شیخ کی اور جن سے احادیث سنی ہیں ، ان کی عزت اور ان کا احترام کرے۔ اور دراصل یہ علم کی تعظیم کرنا ہے جو علمی فائدہ حاصل کرنے کا (بہت بڑا) سبب ہے۔ دوسرے شیخ کی رضا جوئی میں لگا رہے اور اگر وہ بے رخی کرے تو اس پر صبر سے کام لے۔ھ: …اپنے دوستوں اور ہم جماعتوں کو ان فوائد کے طلب کرنے کی طرف رہنمائی کرتا رہے جو اس نے حاصل کیے ہیں اور اپنے علمی استفادات اور فوائد کو ان سے چھپائے نہیں کیوں کہ اپنے ساتھی طلباء سے فوائد علمیہ کا چھپانا ایک قابلِ ملامت پیشہ ہے جس میں صرف کمینے اور جاہل طلبہ ہی گرفتار ہوتے ہیں کیوں کہ حصولِ علم کا قرار واقعی مقصد تو اس کا پھیلانا ہے (ناکہ اس کا چھپانا)۔
[1] اخرجہ الحاکم فی المستدرک۔ کتاب العلم۔ ۱/۸۵ بلفظہ وقال :ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ واقرّہ الذھبی (طحّان)