کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 240
مراد وہ الفاظ ہیں جن کا معنی پوشیدہ ہو (اور عام لوگوں کی فہم سے دور ہو گویا کہ ان کے لیے یہ لفظ اجنبی، بیگانہ اور پردیسی ہو)۔ علامہ فیروز آبادی[1] (لفظ غریب کا فعل بیان کرتے ہوئے) کہتے، ’’غَرُبَ جیسے کَرُمَ (یعنی لفظ غریب باب ’’ کَرُمَ یَکْرُمُ‘‘ سے صفتِ مشبّہ کا صیغہ ہے) اور اس کا معنی ہے ’’غَمُضَ وَخَفِیَ‘‘[2] (کلام کا غیر واضح خفی اور دقیق ہونا)۔
ب:… اصطلاحی تعریف: (محدثین کی اصطلاح میں ) ’’غریب‘‘ حدیث کے متن میں واقع ہونے والے اس غیر واضح لفظ کو کہتے ہیں جو اپنے قلت استعمال کی وجہ سے بعید الفہم ہو۔[3]
۲۔ غریب الحدیث کی اہمیت اور کٹھنائی (اور دشواری):
(’’علوم الحدیث‘‘ میں ) اس فن کی بے حد اہمیت ہے اور حضرات محدثین کو زیبا نہیں کہ وہ اس اہم ترین فن سے بے خبر اور جاہل رہیں ۔ لیکن اس (عمیق دریا) میں قدم رکھنا بھی بڑی جان جوکھوں کا کام ہے، اس لیے اس میدان میں اترنے والے کو بڑی حزم و احتیاط کی ضرورت ہے اور ایسا شخص رب تعالیٰ سے ڈرتا ہے کہ کہیں وہ رسالت مآب ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کی تفسیر نرے گمانوں سے کرنے نہ بیٹھ جائے جب کہ اکابر اسلاف اس باب میں بے حد تحقیق اور چھان بین سے کام لیتے تھے۔
۳۔ غریب الحدیث کی بہترین تفسیر:
غریب الحدیث کی سب سے بہترین تفسیر وہ ہوتی ہے جو کسی دوسری حدیث میں جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرمادی ہو۔[4] جیسے بیمار کی نماز کی بابت حضرتِ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی روایت میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، ’’کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اگر ایسا نہ کر سکو تو بیٹھ کر اور اگر بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکو تو پہلو کے بل (نماز پڑھ لو)‘‘ [5]
(اب یہاں ’’پہلو کے بل سے‘‘ دایاں پہلو مراد ہے یا بایاں اور قبلہ رخ لیٹنا مراد ہے یا غیر قبلہ رخ، اس کی تفصیل مخفی ہے جس کا ادراک بے حد دشوار ہے)
[1] یہ لغت و ادب کے امام علامہ ابو طاہر محمد فیروز آبادی ہیں جو ’’شیراز‘‘ کے قریب ’’کازرون‘‘ نامی ایک قصبہ میں پیدا ہوئے۔ حصول علم کے لیے عراق، مصر اور شام کی خاک چھان ماری اور ’’زبید‘‘میں سکونت اختیار کرلی اشرف اسماعیل کے عہد میں ’’زبید‘‘ کے قاضی بھی رہے اور ’’زبید‘‘ کی خاک میں ہی دفن ہو گئے۔ ’’القاموس المحیط‘‘ آپ کی شہرئہ آفاق علمی یادگار ہے۔ (المنجد فی الاعلام العربی ص۴۲۴)
[2] ’’القاموس المحیط ج۱ ص۱۱۵‘‘ (طحّان)
[3] علوم الحدیث لا بن الصلاح ص۲۷۲ (طحّان)
[4] جیسے علمائے ’’علوم القرآن‘‘ نے لکھا ہے کہ قرآن کریم کی سب سے عمدہ تفسیر وہ ہے جو خود قرآن میں ہی کسی دوسری جگہ بیان ہو جائے۔ اس کو ’’تفسیر القرآن بالقرآن‘‘ کے معزز نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے اگر اس تفسیر کو ’’تفسیر الحدیث بالحدیث‘‘ کا نام دے دیا جائے تو نہایت موزوں ہو گا۔
[5] البخاری۔ کتاب تقصیر الصلوۃ۔ ۲/۵۸۷ حدیث رقم ۱۱۱۷۔ (طحّان)