کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 239
۵۔ ’’لحن فی الحدیث‘‘ اور اس کا سبب:
(لحن کا مطلب ہے غلطی کرنا چناں چہ) ’’لحن فی الحدیث‘‘ کا معنی ’’حدیث پڑھنے میں لغزش کھانا‘‘ ہے۔ ذیل میں اس کے نمایاں اور ممتاز اسباب ذکر کیے جاتے ہیں :
الف: علمِ نحو اور لغت کی تعلیم سے نابلد ہونا:
چناں چہ طالب حدیث کو چاہیے کہ وہ لغت اور نحو کو اس قدر ضرور سیکھ لے جس سے لحن اور تصحیف سے محفوظ رہے۔ (لحن اور تصحیف مترادف الفاظ ہیں اور دونوں کا معنی ’’پڑھنے میں خطا کرنا‘‘ ہے) خطیب نے حماد بن سلمہ سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں ، ’’جو شخص علمِ نحو سے تہی دست ہو اور حدیث حاصل کرنے کا متمنی بھی ہو اس کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس کے اوپرتھیلا تولدا ہو مگر جَوسے خالی ہو (یعنی اس پر خالی بوریاں لدی ہوں )‘‘ [1]
ب: احادیث کو براہِ راست کتابوں اور صحیفوں سے حاصل کرنا اور مشائخ (کے آگے زانوئے تلمذّ طے کرکے ان) سے حدیث نہ لینا:
گزشتہ میں بیان ہو چکا ہے کہ مشائخ سے احادیث لینے اور حاصل کرنے کے چند طرق ہیں جن میں سے بعض دوسرے بعض سے قوی ہیں اور ان میں سب سے قوی طریق خود شیخ کی زبان سے حدیث سننا ہے جس کو ’’السماع من لفظِ الشیخ‘‘ یا ’’قراء ت علی الشیخ‘‘ کہتے ہیں ۔ اس لیے تحصیل حدیث میں مشغول رہنے والے کے لیے ضروری ہے کہ احادیث نبویہ کو اہلِ معرفت و تحقیق کی زبانوں سے (بلاواسطہ) سنے اور حاصل کرے تاکہ (الفاظ حدیث میں ) تصحیف اور خطا سے محفوظ رکھ سکے، طالب حدیث کو شایاں نہیں کہ وہ (صرف) کتابوں اور صحیفوں پر (ہی) اعتماد کر بیٹھ رہے کہ انہی سے حدیث لے اور روایت کردے اور ان کتابوں کو ہی اپنا ’’شیخ‘‘ بنالے کہ اس سے خطاؤں اور لغزشوں کا وقوع اکثر ہوگا۔ اس لیے متقدمین علماء کہا کرتے تھے کہ، ’’قرآن کو مصحفی سے اور حدیث کو ’’صَحفی‘‘ سے حاصل مت کرو۔‘‘[2]
غریب الحدیث[3]
۱۔ غریب کی تعریف:
الف:… لغوی تعریف: غریب کا لغوی معنی ہے ’’خویش و اقارب سے دور پردیسی شخص‘‘ جب کہ غریب سے یہاں
[1] تدریب الراوی: ۲/۱۰۶۔ (طحّان)
[2] مُصْحَفِیُّ: اس شخص کو کہتے ہیں جو قرآن کو مصحف سے حاصل کرتا ہے اور اسے مشائخ اور قراء سے حاصل نہیں کرتا۔ جب کہ ’’صَحَفِیُّ‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو صحیفوں سے حدیث حاصل کرے اور مشائخ سے حاصل نہ کرے۔
علامہ فیروز آبادی ’’القاموس المحیط۳/۱۶۶‘‘ میں کہتے ہیں ، ’’صَحَفِیُّ‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو صحیفہ کے پڑھنے میں خطا کرے۔ (طحّان)
[3] دراصل یہ حدیثِ غریب کی دو اقسام ’’غریب الاسناد‘‘ اور ’’غریب المتن‘‘ میں سے دوسری قسم ’’غریب المتن‘‘ کا بیان ہے جب کہ ’’غریب الاسناد‘‘ کی جملہ تفصیلات کو بابِ اوّل کی فصلِ ثانی کی بحثِ اوّل کے مطلبِ سوم میں بیان کیا جاچکا ہے۔ مگر یاد رہے کہ یہاں ’’غریب المتن‘‘ کے حوالہ سے صرف متن کے غریب الفاظ پر ہی بحث ہوگی۔