کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 238
۳۔ ایسے نابینا کی روایت کا حکم جو سنی بات یاد نہ رکھ سکتا ہو: جب سنی بات کو یاد نہ رکھ سکنے والا نابینا سنی حدیث کو لکھ رکھنے، ضبط کرنے اور کتاب میں محفوظ کرنے کے لیے کسی ثقہ سے مدد لیتا ہو اور وہ ثقہ نابینا پر حدیث قراء ت کرتے وقت احتیاط بھی کرتا ہو کہ غالب گمان اس تحریر کے تبدیلی سے سلامت اور محفوظ ہونے کا ہو، تو اکثروں کے نزدیک ایسے نابینا کی روایت درست ہے اور (حکم کے اعتبار سے) یہ نابینا اُس ان پڑھ بینا کی طرح ہوگا جو (سنی بات کو) یاد نہیں رکھ سکتا۔ ۴۔ حدیث کی روایت بالمعنی اور اس کی شروط: اکابر اسلاف کا حدیث کے بالمعنی روایت کرنے میں اختلاف ہے۔ چناں چہ بعض اس کو منع کرتے ہیں اور بعض اس کے جواز کے قائل ہیں ۔ الف:… محدثین، فقہاء اور علمائے اصول کی ایک جماعت روایت بالمعنی سے منع کرتی ہے۔ ان میں ابن سیرین اور ابوبکر رازی کے جلیل القدر نام آتے ہیں ۔ ب:… جب کہ جمہور اسلاف اور متاخرین محدثین، فقہاء اور علمائے اصول نے اس کو جائز قرار دیا ہے۔ ان میں ائمہ اربعہ رحمہ اللہ کے اسمائے گرامی آتے ہیں ۔ لیکن یہ جواز (اور اجازت) اس وقت ہے جب راوی کو یقین ہو کہ اس نے حدیث کا (ہی) معنی ادا کیا ہے۔ (ناکہ ایسے الفاظ سے حدیث بیان کی ہے جن سے حدیث کا معنی ہی بدل گیا ہو)۔ پھر جن لوگوں نے روایت بالمعنی کو جائز قرار دیا ہے انہوں نے (اس کو مطلق نہیں رکھا بلکہ) اس کے (جوازکے) لیے چند شروط مقرر کی ہیں ، جو یہ ہیں : ۱۔ روایت بالمعنی کا راوی الفاظ اور ان کے مقاصد (اور ان کی مرادات) کا عالم ہو۔ ۲۔ اور ان امور کی پوری خبر رکھتا ہو جو معانی بدل دیتے ہوں ۔ یہ جملہ مذکورہ تفصیلات ایسی روایات کے بارے میں ہیں جو کتب حدیث میں (ضبطِ تحریر اور قیدِ تسطیر میں ) نہ آئی ہوں ۔ البتہ کتبِ مصنَّفہ کی کسی روایت کو بالمعنی اور اس کے الفاظ کو بدل کر ادا کرنا جائز نہیں اگرچہ وہ الفاظ کتاب میں مذکورہ الفاظ کے ہم معنی (اور ان کے مرادف) ہی کیوں نہ ہوں ، کیوں کہ روایت بالمعنی کا جواز اس ضرورت کی وجہ سے تھا جب راوی کو حدیث کا کوئی کلمہ نہیں ملتا تھا۔ لیکن اب جب کہ احادیث کتابوں میں لکھی جا چکی ہیں تو کتابوں میں ان کے درج کر دینے کے بعد اب روایت بالمعنی کی ضرورت نہیں رہی۔ اس تفصیل کے بعد یہ بات بھی یاد رہے کہ حدیث کو بالمعنی روایت کرنے والے کو چاہیے کہ وہ حدیث کو بیان کرنے کے بعد ’’اَوْکَمَاقَالَ‘‘ یا ’’نَحْوَہٗ‘‘ یا ’’شِبْھَہٗ‘‘ کے الفاظ ضرور کہے۔ (مطلب یہ ہے کہ جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ان ذکر کردہ الفاظ کے قریب قریب یا ان سے ملتے جلتے ہیں )۔