کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 237
بحث چہارم روایت حدیث کی صفت[1] ۱۔ (اس بحث کا) یہ نام رکھنے سے کیا مراد ہے؟ اس عنوان سے مراد اس کیفیت کا، جو حدیث روایت کرتے وقت ہونی چاہیے اور ان آداب کا اور ان دونوں کے متعلقہ باتوں کا بیان ہے جن سے حدیث روایت کرنے والے کو مزیّن اور آراستہ ہونا چاہیے۔ ان کیفیّات اور آداب میں سے کچھ کا ذکر تو گزشتہ مباحث میں ہو گیا ہے۔ باقی کے آداب و کیفیّات کو ذیل میں ملاحظہ کیجیے! ۲۔ کیا کسی راوی کا ایسی کتاب سے حدیث روایت کرنا جائز ہے جسے وہ کتاب یاد ہواورنہ اس کی مذکورہ احادیث ؟ علماء کا اس بات میں اختلاف ہے۔ بعض نے تو اس باب میں تشدّد اور افراط سے کام لیا ہے اور بعض تساہل اور تفریط کا شکار ہو گئے۔ جب کہ کچھ علماء اس بارے معتدل اور میانہ رو رہے۔ (ذیل میں ہر ایک طبقہ کے قول کو بیان کیا جاتا ہے): الف: متشددین کا قول: ان لوگوں نے صرف ان احادیث کو ہی روایت کرنا جائز قرار دیا ہے جو راوی اپنی یادداشت سے روایت کرے۔ یہ امام مالک رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ابوبکر صیدلانی شافعی کا قول ہے۔ ب:متساہلین (یعنی سہل اَنگاروں ) کا طریق: ان لوگوں نے (سہولت پسندی اور تفریط سے اس حد تک کام لیا کہ) ان نسخوں تک سے احادیث روایت کر ڈالیں جن کا اصل کے ساتھ موازنہ تک نہ کیا گیا تھا۔ ان سہل انگاروں میں ایک نام ابن لھیعہ کا ہے۔ ج: متوسط (میانہ رو) اور معتدل لوگ: یہ جمہور ہیں کہ ان لوگوں نے یہ کہا کہ، ’’اگر تو راوی تحمّل حدیث اور مقابلہ و موازنہ میں گزشتہ مذکورہ شروط کو ملحوظ رکھتا ہے تو اس کے لیے کتاب سے احادیث روایت کرنا جائز ہے۔ اگرچہ اس سے وہ کتاب (کچھ عرصہ کے لیے) غائب بھی ہو گئی ہو (اور دوبارہ دستیاب ہو گئی ہو) جب کہ غالب گمان یہ ہو کہ وہ کسی قسم کے تغیر اور تبدل سے محفوظ رہی ہو گی خصوصاً اس وقت جب راوی ایسا ہو کہ اس پر کتاب میں ہونے والی تبدیلی چھپی نہ رہ سکتی ہو۔
[1] اس موضوع کو بھی ہم اختصار کے ساتھ ذکر کریں گے کیوں کہ اس بحث کی بعض جزئیات ’’عصر روایت‘‘ میں ضروری تھیں جب کہ آج کل ان جزئیات کا مطالعہ ’’تاریخِ روایت‘‘ کے مطالعہ کے باب سے ہے۔ البتہ ان جزئیات کا مطالعہ اس فن کے متخصصین کے لیے ضروری ہے۔ (طحّان)