کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 234
اپنے شیخ کے ناموں پر مرتب احادیث کو جمع کیا ہو (چاہے ان مشائخ میں حضراتِ صحابہ کی رعایت کی گئی ہو یا اپنے اساتذہ کی یا کسی شہر اور مقام کے خاص شیوخ کی) جیسے طبرانی کی ’’المعجم الاوسط‘‘ اور ’’المعجم الصغیر‘‘[1]
ھ: اَلْعِلَلُ:
’’کتبِ علل‘‘ ان کتابوں کو کہتے ہیں جو ’’احادیثِ معلولہ‘‘ کے ذکر پر مشتمل ہوں جن میں ان علتوں کو بھی ساتھ ہی ذکر کیا گیا ہو (یعنی ان کتب میں صرف وہ احادیث مذکور ہوں جن میں کوئی علت اور سقم پایا جاتا ہو اور ساتھ ہی ان احادیث کی علتوں کو بھی ذکر کیا گیا ہو) جیسے ’’کتاب العلل لابن ابی حاتم‘‘ اور ’’کتاب العلل للّدارقطنی۔‘‘
و: اَلْاَجْزَائُ:
یہ ’’جزء‘‘ کی جمع ہے اور ’’جزء‘‘ ہر اس مختصر اور چھوٹی کتاب کو کہتے ہیں جس میں رواۃِ حدیث میں سے صرف ایک راوی کی مرویات کو جمع کر دیا گیا ہو، یا پھر صرف ایک موضوع (مثلاً نماز) کے متعلقہ احادیث کو تلاش کرکے اکٹھا کر دیا گیا ہو جیسے امام بخاری رحمہ اللہ کی ’’جزئُ رَفْعِ الْیَدَیْنِ‘‘ (اسی طرح امام بخاری کی ہی ’’جُزْئُ الْقِرَائَ ۃِ خَلْفِ الْاِمَامِ‘‘ بھی ہے)۔
ز:الاطراف:
(اطراف یہ ’’طرف‘‘ کی جمع ہے اور طرف کا معنی کسی شی کا کنارا اور اس کی ایک جانب ہے۔ اور ’’اطراف‘‘) یہ ہر اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں اس کے مصنّف نے ہر حدیث کے اس حِصّے کو ذکر کیا ہو جو اس کے باقی متن پر بھی دلالت کرتا ہو، پھر اس کے بعد مصنف تمام متونِ حدیث سے یا بعض کتب میں مذکور اس حدیث کی تمام اسانید کو ذکر کرے۔ جیسے علامہ مزی رحمہ اللہ کی ’’تحفۃ الاشراف بمعرفۃ الاطراف‘‘ [2]
ج: المستَدْرَکات:
یہ ’’مُسْتَدْرَکَ‘‘ کی جمع ہے اور ’’مستدرک‘‘ ہر اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں اس کے مؤلف نے کسی کتاب میں
[1] علامہ طبرانی نے معجم کے نام سے تین کتابیں لکھی ہے دو کا ذکر اوپر متن میں ہو گیا ہے تیسری کتاب ’’المعجم الکبیر‘‘ ہے۔ مولف موصوف نے مثال میں اس کا نام اس لیے نہیں لیا کہ تعریف میں مولف نے معجم اس کتاب کو قرار دیا ہے جِس میں مشائخ کے ناموں میں حروفِ تہجی کی رعایت رکھتے ہوئے ان کی احادیث کو جمع کیا گیا ہو۔ اب چوں کہ معجم کبیر میں اسماء صحابہ کی رعایت سے احادیث مذکورہ ہیں اور اوسط اور صغیر میں مشائخ کے اسماء کی رعایت سے، اس لیے ذکر کردہ تعریف معجم کبیر پر منطبق نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے مثال میں معجم اوسط اور صغیر کو ذکر کیا البتہ اگر معجم کی تعریف میں توسع سے کام لیا جائے تو ’’معجم کبیر‘‘ بھی اس تعریف میں داخل ہوتی ہے۔
تنبیہ:اور اگر مشائخ کا ذکر حروفِ تہجی کے اعتبار سے نہ ہو تو اس کو بجائے معجم کے ’’مشیخہ‘‘ کہتے ہیں ۔ جس کی جمع ’’مشیخات‘‘سے آتی ہے۔ جیسے ’’مشیخۃ عبداللّٰہ بن حیدر قزوینی‘‘ (علوم الحدیث، ص: ۳۴۶ بزیادۃٍ کثیرۃٍ)
[2] یہ ’’صحاح ستہ‘‘ سے متعلق ہے۔ اطراف کی تعداد بھی بہت ہے۔ ان میں حافظ ابراھیم بن محمد ابو مسعود دمشقی کی ’’اطراف الصحیحین‘‘ اور علی بن حسین ابن عساکر کی ’’الاِشراف علی معرفۃ الاطراف‘‘ کافی مشہور ہیں ۔ (علوم الحدیث، ص: ۳۴۷ بتصرفٍ )