کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 231
۶۔ الفاظِ ادا وغیرہ کی کتابت کی (بعض مخصوص) اصطلاحات:
اکثر کاتبین حدیث الفاظِ اداء میں (اختصار کی غرض سے) بعض رموز پر اکتفاء کرتے ہیں ( جنہیں ’’رموزِ کتابت‘‘ کہہ سکتے ہیں ) اُن میں سے چند ایک کو ہم بطور مثال کے لکھتے ہیں ) چناں چہ کاتبینِ حدیث
الف: …حَدَّثَنَا کو ’’ثَنَا‘‘ یا (صرف) ’’نَا‘‘ لکھتے ہیں ۔
ب: …(اسی طرح) ’’اخَبَرَنَا‘‘ کو ’’اَنَا‘‘ یا ’’اَرَنَا‘‘
لیکن قاری کو چاہیے کہ وہ الفاظ کو پڑھتے وقت ان کا پورا تلفظ ادا کرے اور اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ان الفاظ اس طرح پڑھے جس طرح وہ لکھے ہوئے ہیں ۔
ج:… کاتبین حدیث کی ایک یہ بھی عادت ہے کہ جب وہ ایک اسناد سے دوسری اسناد کی طرف جاتے ہیں تو (دوسری سند بیان کرنے سے پہلے) تحویل (پر دلالت کرنے) کے لیے ’’ح‘‘ کی رمز استعمال کرتے ہیں اور قاری اس لفظ کو ’’حَا‘‘ کے تلفظ کے ساتھ ادا کرتا ہے ۔
د: …اسی طرح کاتبینِ حدیث کی یہ بھی عادت ہے کہ وہ اسناد کے رجال کے درمیان لفظ ’’قَالَ‘‘ وغیرہ کو خط سے حذف کر دیتے ہیں اور ایسا وہ فقط اختصار کی غرض سے کرتے ہیں ۔ لیکن قاری کو چاہیے کہ وہ (رجالِ اسناد کی) قراء ت کے وقت ’’قَالَ‘‘ کا تلفظ کرے۔ مثلاً (اگر ایک اسناد کو کاتب نے یوں لکھا ہے)، ’’حدثنا عبداللّٰہ بن یوسف، اخبرنا مالکُ‘‘ تو قاری کو(یہ اسناد) یوں پڑھنی چاہیے، ’’حدثنا عبداللّٰہ بن یوسف، قال اخبرنا مالکُ‘‘
ھ: …اسی طرح کاتبین ِ حدیث کی یہ بھی عادت رہی ہے کہ وہ سند کے آخر سے اختصار کی بنا پر لفظ ’’اَنَّہُ‘‘ کو حذف کر دیتے ہیں ، مثلاً (اگر اسناد کے آخری حصے کو کاتب نے یوں لکھا ہے، ’’عن ابی ھریرۃ قال‘‘ تو قاری کو ’’اَنَّہُ‘‘ ضرور پڑھنا چاہیے چناں چہ وہ (مذکورہ مثال میں اسناد کے آخر کو یوں ) پڑھے، ’’عن ابی ھریرۃ اَنَّہُ قَالَ‘‘ اور اس کی وجہ کلام کو اعراب کے اعتبار درست کرنا ہے (اور یہ بات اہلِ علم پر عیاں ہے جس کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں )۔
۷۔طلبِ حدیث کے لیے اسفار:
ہمارے اکابر اسلاف اور صلحائے امت نے حدیث نبوی پر جس قدر توجہ دی (اور اس کے اوپر اپنی زندگیاں لٹا دیں ) اس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ اور حدیث کے ضبط کرنے اور جمع کرنے میں ان حضرات نے اپنی ہمتیں ، کوششیں اور جس قدر وقت صرف کیا، عقل (اس کے سامنے انگشت بدنداں رہ جاتی ہے اور) اس کو ماننے سے انکار کر دیتی ہے۔ پھر یہی نہیں بلکہ جب یہ حضرات (ان حیرت انگیز کوششوں اور محنتوں کے بعد) ایک شہر کے مشائخ سے احادیث حاصل کر لیتے تھے تو (علمِ حدیث کے یہ متلاشی اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے روئے زمین کی خاک چھاننے کو) دور نزدیک کے دوسرے بلا دوامصار کی طرف نکل جاتے تاکہ (اپنی اس بے قراری میں قرار آ جانے کا سامان کریں اور) ان بلاد کے مشائخ سے بھی حدیث حاصل کر (کے اپنا دامن علمی موتیوں سے بھر) لیں (اور علم کی پیاسی روح کی رگ