کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 230
پوری ہمت صرف کر ڈالے کہ کسی حرف کی شکل اور نقطوں میں کوئی اشتباہ باقی نہ رہے( کہ ایک حرف یا لفظ دوسرے جیسا نہ لگے)۔
دوسرے حدیث لکھنے والا مشکل الفاظ کو ان کی پوری شکل میں (حرکات و سکنات کی وضاحت کے ساتھ) لکھے خصوصاً ناموں (کی اشکال) کو (خوب واضح کرے) کیوں کہ ان (کی حرکات و سکنات) کو ان کے ماقبل اور مابعد (یعنی سیاق و سباق) سے نہیں سمجھا جاسکتا۔
تیسرے یہ کہ کاتبِ حدیث کا خط واضح اور کتابت کے قواعد مشہورہ کے موافق ہو۔
کاتب کتابت کے دوران اپنی کوئی خاص رمزیہ اصطلاح نہ بنائے جو لوگوں میں معروف نہ ہو (کہ اس کو وہی سمجھ سکے دوسرے لوگ اس سے واقف نہ ہوں )۔
کاتب کو یہ بھی چاہیے کہ حدیث لکھتے وقت جب بھی جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کا پورا اہتمام کرے۔ (کہ پورا پورا درود لکھے اور اس کے لیے کوئی مختصر علامت نہ استعمال کرے) اور بار بار لکھنے سے تنگ دل نہ ہو۔ اور اگر اصل نسخہ میں درود پورا نہ لکھا ہو تو اس کی اتباع نہ کرے (بلکہ پورا درود لکھے) اور ایسے ہی (جہاں جہاں رب تعالیٰ کا نام آجائے) ’’عَزَّوَجَلَّ‘‘ لکھ کر رب تعالیٰ کی ثنا بیان کرے اور یہی معاملہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسماء مبارکہ کے آنے پر ’’ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘‘ لکھنے کا اور اکابر اسلاف علماء کے اسمائے گرامی آنے پر ’’رحمہ اللّٰہ‘‘ لکھنے کا ہے۔
جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر مبارک پر صرف سلام پر (علیہ السلام لکھ کر) یا صرف صلوۃ پر (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ یا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ لکھ کر) اختصار اور اکتفاء کرنا مکروہ ہے۔ اسی طرح ’’ص‘‘ یا ’’صلعم‘‘ وغیرہ کی رمزیہ علامت استعمال کرنا بھی مکروہ ہے۔
چناں چہ کاتب حدیث پر واجب ہے کہ وہ صلوۃ و سلام کو پورا لکھے۔
۵۔ مقابلہ و موازنہ اور اس کا طریقہ؟
کاتب حدیث جب کتابت حدیث سے فارغ ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی (تحریر کردہ) کتاب کا اپنے شیخ کی اصل[1]کے ساتھ موازنہ کرے چاہے اس نے شیخ سے بطریق اجازت حدیث کو حاصل کیا ہو۔
موازنہ کی کیفیت:… (اور اس کا طریقہ) یہ ہے کہ طالب اور اس کا شیخ حدیث سناتے ہوئے اپنی اپنی کتاب (اپنے سامنے) لے کر بیٹھیں ۔ (یہ تو اس باب میں اولیٰ ہے) البتہ قراء ت کے وقت یا اس کے بعد کوئی ثقہ شیخ اس نسخہ کا کسی وقت موازنہ کرلے تو یہ بھی کافی ہے، جیسا کہ خود اس کا اپنے تحریر کردہ نسخہ کا اس نسخہ سے موازنہ کرنا بھی کافی ہے جس کا شیخ کی اصل کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہو (اور ایسے نسخہ کو ’’فَرْعُ مُقَابَلُ‘‘ کہتے ہیں ، یعنی پہلے سے موازنہ شدہ نسخہ)۔
[1] اصل سے مراد شیخ کا وہ نسخہ ہے جو طالب نے خود اس سے لیا ہو۔ (طحّان)