کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 228
بحث سوم
کتابتِ حدیث، ضبطِ حدیث اور تصنیفاتِ حدیث کا بیان[1]
۱۔کتابتِ حدیث کا حکم:
اکابر صحابہ اور تابعین میں کتابت حدیث کی (کراہت و اباحت اور جواز) کی بابت مختلف اقوال منقول ہیں ، جو یہ ہیں :
الف: …کتابت حدیث مکروہ ہے: یہ حضرتِ ابن عمر، ابن مسعود اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کا مذہب ہے کہ یہ حضرات کتابت حدیث کو پسند نہیں فرماتے تھے۔
ب:… کتابتِ حدیث مباح ہے: یہ حضرتِ عبداللہ بن عمرو، حضرت انس رضی اللہ عنہم، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اور اکثر صحابہ کا مذہب ہے۔
ج:…(اگرچہ ابتداء میں حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں کتابتِ حدیث کے جائز یا مکروہ ہونے میں اختلاف رہا) لیکن بعد میں سب کا کتابتِ حدیث کے جواز پر اجماع ہو گیا اور اختلاف ختم ہو گیا اور اگر احادیث کو کتابوں میں مدوّن نہ کیا جاتا تو قرونِ متأخرہ میں اور خصوصاً ہمارے اس دور میں (جس میں امورِ دینیہ کی بابت لاپرواہی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے) حدیث ضائع ہو جاتی۔
۲۔ کتابت حدیث کے حکم میں اختلاف کا سبب:
کتابت حدیث کے حکم میں (حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے) اس اختلاف کا سبب اس کی اباحت اور نہی کی بابت وارد احادیث متعارضہ ہیں ، ذیل میں ان چند احادیث متعارضہ کو پیش کیا جاتا ہے:
الف:… ممانعت پر مشتمل حدیث: یہ مسلم شریف کی روایت ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے:
’’مجھ سے (قرآن کے سوا اور کچھ) مت لکھو، اور جس نے مجھ سے (سن کر) قرآن کے سوا کچھ لکھا ہو تو وہ
[1] اس موضوع پر ہم اختصار کے ساتھ گفتگو کریں گے کیوں کہ ہمارے اس زمانہ میں کتابت اور اس کی تصحیح کے بیشتر قواعد کا تعلق محقق اور پبلشر کے متعلق رہ گیا ہے کہ یہ انہی کی ذمہ داری بنتی ہے۔ رہ گئے باقی کے قواعد اور متعلقہ تفصیلات تو وہ اس فن کے ماہرین (Especialists) کا میدانِ تحقیق ہیں جو قدیم مخطوطوں کی کتابت کے متعلق لوگوں کے اصطلاحات کی چھان بین کرتے ہیں (کہ ہر قوم کے نزدیک کتابت کا کیا دستور اور کیا کیا قواعد اور کیا کیا رسم الخط ہیں )۔ (طحّان)