کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 225
۲۔ عدمِ جواز کا، اور یہ متعدد علماء محدثین کا قول ہے، اور یہی صحیح[1]ہے کیوں کہ کبھی شیخ یہ تو بتلاتا ہے کہ یہ حدیث اس کی روایت ہے لیکن اس روایت میں کسی خلل کے ہونے کی بنا پر (خواہ وہ سند میں ہو یا متن میں ) اس کی حدیث کی روایت درست نہیں ہوتی، ہاں البتہ اگر شیخ اس کی روایت کی اجازت دے تو روایت کرنا جائز ہوتا ہے۔
ج: الفاظِ ادا:
اعلام کے ذریعے حاصل کی جانے والی حدیث کو روایت کرتے وقت طالب یہ الفاظ کہے ’’اَعْلَمَنِیْ شَیْخِیْ بِکَذَا‘‘ ’’میرے شیخ نے مجھے یہ بیان کیا ہے، بتلایا ہے‘‘
(۷) وصیت
(یہ تحمّل حدیث کا ساتواں طریق ہے):
الف: وصیّت کی صورت:
(وصیّت کا لغوی معنی معروف ہے اور اس کی اصطلاحی تعریف کو درج ِ ذیل صورت سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ) وصیّت کی صورت یہ ہے کہ شیخ اپنی موت یا کسی سفر پر روانہ ہونے کے وقت کسی شخص کے حق میں اپنی کتابوں میں سے کسی کتاب کی وصیت کرجائے کہ جو اس نے روایت کی تھیں ۔
ب: وصیت کے ذریعے حاصل کی جانے والی احادیث کی روایت کا حکم:
(اس بابت دو اقوال ہیں )
۱۔ جواز کا، یہ بعض اسلاف کا قول ہے جو غلط ہے کیوں کہ شیخ نے اس کے حق میں فقط کتاب کی وصیّت کی تھی ناکہ اس کے روایت کرنے کی بھی۔
۲۔ عدمِ جواز کا اور یہی قول درست ہے۔
ج: الفاظِ ادا:
وصیت کے ذریعے حاصل کی جانے والی حدیث کو طالب آگے روایت کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے، ’’اَوْصَی اِلَیَّ فُلَانٌ بِکَذَا‘‘ فلاں نے میرے حق میں اس (کتاب وغیرہ) کی وصیت کی ہے‘‘ یا (عمومی الفاظ کے ساتھ مگر وصیت کے قید کے ساتھ یوں کہے) ’’حَدَّثَنِیْ فُلَانٌ وَصِیَّۃً۔‘‘
۷۔ اَلْوِجَادَۃُ
(یہ تحمل حدیث کا آٹھواں طریق ہے)
لفظ ’’الوجادۃ‘‘ یہ واو کے کسر (زیر) کے ساتھ ’’وَجَدَ‘‘ فعل کا مصدر ہے (جس کا معنی ہے ’’پانا‘‘) مگر یہ مصدر
[1] امام نووی اور ابن صلاح وغیرہ نے عدم جواز کے قول کو صحیح قرار دیا ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۳۱۴)