کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 224
کہ کسی کو لکھ کر دینا اجازت دینے کی غمازی کرتا ہے۔ د: کیا تحریر پر اعتماد (حاصل کرنے) کے لیے گواہ ٹھہرانا شرط ہے؟ (اس بابت دو قول ہیں ، جو یہ ہیں ): ۱۔ بعض کے نزدیک تحریر پر گواہوں کا ہونا شرط ہے، ان کا یہ دعویٰ اس بنا پر ہے کہ تحریریں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہوتی ہیں ۔ مگر یہ قول ضعیف ہے۔ ۲۔ جب کہ بعض کا کہنا ہے کہ اس قدر بات تحریر پر اعتماد کے لیے کافی ہے کہ ’’مکتوب الیہ‘‘ (یعنی وہ شاگرد جس کی وہ تحریر بھیجی گئی ہے) وہ کتاب (خواہ وہ شیخ خود ہو یا کسی نے شیخ کے حکم سے لکھا ہو) کا خط پہچانتا ہو کیوں کہ ایک آدمی کی تحریر دوسرے کے مشابہ نہیں ہوتی[1] ، اور یہی صحیح قول ہے۔ ھ: کتابت کے ذریعے حاصل کی جانے والی حدیث کے الفاظِ ادا: ۱۔ یا تو صراحتہ کتابت کا ذکر ہو جیسے یہ کہنا، ’’کَتَبَ اِلَیَّ فُلَانٌ‘‘ ’’مجھے فلاں نے (یہ احادیث یا رسالہ یا کتاب) لکھ کر بھیجی ہیں ۔‘‘ ۲۔ یا پھر عام الفاظ کے ساتھ حدیث روایت کرے جو حدیث کی سماعت اور قراء ت پر دلالت کرتے ہوں البتہ وہ کتابت کے ذکر کے ساتھ مقید ہوں جیسے ’’حَدَّثَنِیْ فُلَانٌ کِتَابَۃً‘‘ یا ’’اَخْبَرَنِیْ فُلَانٌ کِتَابَۃً۔‘‘ ۶۔ اِعلام [2] (یہ تحمّل حدیث کاچھٹا طریق ہے) الف: اعلام کی صورت: (اس سے اعلام کی اصطلاحی تعریف بھی اخذ کی جاسکتی ہے) اعلام کی صورت یہ ہے کہ شیخ (اور محدث) طالب کو یہ بتلائے کہ (مثلاً) یہ حدیث یا کتاب اس کی سنی ہوئی ہے۔ ب: اعلام کے ذریعے حاصل کی گئی حدیث کی روایت کا حکم: اعلام کے ذریعے حاصل کی گئی حدیث کی روایت کی بابت علماء کے دو مختلف اقوال ہیں : ۱۔ جواز کا، اور یہ اکثر محدثین، فقہاء اور علمائے اصول کا قول ہے۔
[1] اور یہی صحیح بھی ہے جیسا کہ خود مولف بتلا رہے ہیں اور آج کے دورِ جدید میں تحریروں میں فرق و امتیاز کرنے کی مہارت حاصل کرنا مستقل ایک فن ہے جس کے ماہرین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کسی شخص کی تحریر دوسرے سے نہیں ملتی۔ [2] اعلام کا لغوی معنی ہے اطلاع دینا، خبر دینا، ابلاغ وغیرہ (القاموس الوحید ص۱۱۱۹) اور اصطلاحِ محدثین میں اعلام یہ محدث کا اس بات کی خبر دینا ہے کہ فلاں حدیث یا فلاں کتاب اس کی سنی ہوئی ہے (علوم الحدیث، ص: ۳۱۴) اگرچہ متن میں اصطلاحی تعریف صراحتہً مذکور نہیں لیکن ’’اعلام‘‘ کی ذکر کردہ صورت کے ضمن میں اس تعریف کو اخذ کیا جاسکتا ہے۔