کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 220
جب کہ اس وقت میں بھی یہ حدیث سن رہا تھا) اور انہوں نے اس حدیث کو تسلیم کیا (کہ ہاں یہ حدیث میری ہے اور یوں ہی ہے)۔‘‘ ۲۔ البتہ ایسی حدیث کو ان تمام الفاظ سے بھی ادا کیا جاسکتا ہے جو ’’سماع‘‘ پر دلالت کریں اور لفظِ قراء ت کے ساتھ مقید ہوں جیسے ’’حَدَّثَنَا قِرَائَ ۃً عَلَیْہِ‘‘ (ہمیں فلاں نے بیان کیا جب کہ اس وقت یہ حدیث ان پر قراء ت کی جا رہی تھی)۔ (یہ الفاظ ’’جائز‘‘ کہلاتے ہیں ۔ علوم الحدیث، ص: ۳۱۰۔ ) ۳۔ تیسری قسم کے الفاظ وہ ہیں جو اکثر محدثین کے نزدیک رائج ہیں اور وہ صرف لفظ ’’اخبرنا‘‘[1]کا اطلاق ہے (کہ صرف اَخْبَرَنَا بول کر قراء ت علی الشیخ کو مراد لے لیاجائے)۔ البتہ دوسرے الفاظ قراء ت پر دلالت کرنے میں مطلق نہیں ۔ (ان کو ’’رائج‘‘ الفاظ کہتے ہیں ۔ علوم الحدیث، ص: ۳۱۰۔ ) ۴۔ ’’اَلْاِجَازَۃُ‘‘: (یہ تحمّلِ حدیث کا تیسرا طریق ہے) الف :… اجازت کی تعریف: اجازت کا معنیٰ( استاد کا شاگرد کو) زبانی یا تحریری حدیث روایت کرنے کی اجازت دینا ہے۔ ب:… اجازت کی صورت: اس کی صورت یہ ہے کہ شیخ کسی طالب حدیث کو یہ کہے، ’’میں نے تمہیں اس بات کی اجازت دی کہ تم (مثلاً) صحیح بخاری (یا کسی دوسری حدیث کی کتاب کو) کو میرے واسطے سے روایت کرلو۔‘‘ ج:… اجازت کی اقسام: ’’اجازت‘‘ کی متعدد انواع[2] ہیں ۔ مگر ہم ان میں سے صرف پانچ کو ذکر کرتے ہیں ، جو یہ ہیں : ۱۔ شیخ کسی معیّن (شاگرد) کو کسی معیّن (کتاب) کی اجازت دے:…… جیسے شیخ یہ کہے، ’’میں نے فلاں فلاں معین کو صحیح بخاری کی (آگے اپنے واسطے سے روایت کرنے کی) اجازت دی (یہ معین کی اجازت دینے کی تعبیر ہوئی) یہ اجازت کی انواع میں سب سے اعلیٰ نوع ہے جو ’’مُنَاوَلَۃٌ‘‘ (کے مفہوم) سے خالی ہے (مناولہ کا بیان آگے آرہا ہے)۔ ۲۔ کسی معیّن کو غیر معیّن کتاب کی اجازت دینا:……مثلاً شیخ یوں کہے، ’’میں نے تمہیں اپنی ’’مسموعات‘‘ کی روایت کی اجازت دی (کہ اس میں کسی خاص حدیث یا کتاب کی طرف اشارہ نہیں بلکہ جو کچھ سنا ہے وہ روایت کرلو)۔ ۳۔ غیر معین کو غیر معین اجازت دینا:…… مثلاً کسی کا یہ کہنا، ’’میں نے اپنے زمانے کے لوگوں کو اپنی مسموعات کی روایت کی اجازت دی۔‘‘ ۴۔کسی مجہول کتاب کی اجازت دینا یا کسی مجہول شاگرد کو اجازت دینا:…… (دراصل یہ اجازت کی دو صورتیں ہیں جن کو مؤلف موصوف نے ایک ہی جگہ جمع کردیا ہے) اس کی صورت یہ ہے کہ شیخ کہے، ’’میں نے تمہیں ’’کتاب
[1] نوٹ:یہ جمع کا صیغہ ہے۔ اور جب شیخ پر قراء ت کرنے والا شاگرد تنہا ہو تو وہ ’’اَخْبَرَنَا‘‘ کی بجائے ’’اَخْبَرَنِیْ‘‘ کہے گا (علوم الحدیث، ص: ۳۱۰) [2] علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی نو صورتیں ذکر کی ہیں (علوم الحدیث، ص: ۳۱۱)