کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 219
’’سماع من لفظِ الشیخ‘‘ کے لیے: سَمِعْتُ یا حَدَّثَنِی قراء ۃ علی الشیخ کے لیے: اَخْبَرَنِیْ ’’اِجَازَۃ‘‘ کے لیے : اَنْبَأنِیْ ’’سماع المذاکرۃ‘‘[1]کے لیے: قَالَ لِیْ یا ذَکَرَ لِیْ ۲۔قِرَائَ ۃً عَلَی الشَّیْخ: (یعنی شاگرد استاد کے سامنے بیٹھ کر حدیث پڑھے اور استاد اور دوسرے شاگرد سنیں یا اگر شاگرد اکیلا ہو تو صرف استاد سنے) اور اکثر محدثین تحمّلِ حدیث کے اس طریق کو ’’عرض‘‘ کہتے ہیں ۔ الف: …قراء ۃ علی الشیخ کی صورت یہ ہے کہ طالب پڑھے اور شیخ ا سے سنے۔[2]چاہے یہی شاگرد پڑھ رہا ہو اور استاد سن رہا ہو یا پڑھ تو کوئی دوسرا شاگرد رہا ہو اور یہ بھی (استاد کے ساتھ) سن رہا ہو۔ اور چاہے زبانی پڑھے یا کتاب سے، اور چاہے شیخ اور استاد بھی اپنی یاددواشت سے پڑھنے والے شاگرد کے ساتھ ساتھ پڑھتا رہے یا شیخ خود یا کوئی دوسرا ثقہ اور معتمد کتاب لے کر بیٹھ جائے (اور پڑھنے والے کا مقابلہ و موازنہ کرتا جائے) ب: …قراء ت علی الشیخ کی روایت کا حکم: قرا ء ت علی الشیخ کے طریق سے حدیث کو روایت کرنا بلا اختلاف صحیح ہے چاہے اس کی مذکورہ صورتوں میں سے جو بھی صورت رہی ہو سوائے بعض متشددین کے جو کسی شمار قطار میں نہیں ، وہ اس طریق سے روایت کو صحیح نہیں مانتے۔ ج: …قراء ت علی الشیخ کے طریق کا رتبہ: اس کے رتبہ کی بابت تین مختلف اقوال ہیں : ۱۔ سماع من لفظ الشیخ کے مساوی ہے: یہ امام مالک، امام بخاری اور کوفہ اور حجاز کے اکثر علماء کا مذہب ہے۔ ۲۔ سماع سے ادنیٰ ہے: یہ جمہور اہلِ مشرق سے مروی قول ہے اور ’’یہی صحیح ہے۔‘‘ ۳۔ سماع سے اعلیٰ ہے: یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ابن ابی ذئب سے مروی ہے۔ اور ایک روایت میں امام مالک رحمہ اللہ سے بھی یہی منقول ہے۔ د: …قراء ت علی الشیخ سے حاصل کی جانے والی حدیث کے الفاظِ ادا: (ایسی حدیث کے تین قسم کے الفاظِ ادا ہیں )۔ ۱۔ اَحْوَطُ الْاَلْفَاظِ: (یعنی وہ الفاظ جو زیادہ احتیاط پر مبنی ہیں اور وہ یوں ) کہ طالب حدیث کہے، ’’قَرَأْتُ عَلٰی فُـلَانٍٍ‘‘ (میں نے یہ حدیث فلاں پر پڑھی) یا ’’قُرِیَٔ عَلَیْہِ وَ اَنَا اَسْمَعُ‘‘ (شیخ کے سامنے حدیث پڑھی گئی،
[1] یاد رہے کہ سماع المذاکرہ اور ہے اور سماع التحدیث اور کیوں کہ سماع التحدیث یہ ہے کہ کبھی شیخ اور طالب مجلس تحدیث میں جانے سے پہلے استحضار اور ضبط کے لیے تیاری کرتے ہیں جب کہ مذاکرئہ حدیث میں یہ تیاری نہیں ہوتی۔ (طحّان) [2] اس سے یہ مراد ہے کہ طالبِ علم شیخ کی مرویات پڑھے ناکہ یہ مطلب ہے کہ وہ جس کی چاہے احادیث پڑھ دے اور یہ شرط اس لیے ہے کہ طالب کے شیخ پر قرا ء ت کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ شیخ خود بھی اپنی احادیث کو شاگرد سے سن لے تاکہ اس کے ضبط کا اطمینان کرلے۔ (طحّان)