کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 218
بحث دوم: طرقِ تحمل اور صِیَغ ادا[1]کا بیان علماء نے ’’تحمّلِ حدیث‘‘ کے آٹھ طرق بیان کیے ہیں ، جو یہ ہیں : السماع من لفظ الشیخ القراء ۃ علی الشیخ الاجازۃ المناولۃ الکتابۃ الاعلام الوصیّۃ اور الوجادۃ ہم ان میں سے ہر ایک پر اختصار کے ساتھ کلام کریں گے اور ساتھ ہی اختصار کے ساتھ ہر ایک طریق کے ’’الفاظِ ادا‘‘ کو بیان کریں گے: ۱۔ اَلسَّمَاعُ مِنْ لَّفْظِ الشَّیْخ: (یعنی شیخ حدیث کے جو الفاظ بیان کر رہا ہے ان کو سننا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں ’’استاد کی زبان سے حدیث کو سننا) الف:… شیخ کی زبان سے حدیث سننے کی صورت: اس کی صورت یہ ہے کہ شیخ حدیث پڑھے اور ’’طالب‘‘ حدیث سُنے۔ چاہے شیخ نے وہ حدیث اپنی یادداشت کی مدد سے پڑھی ہو یا اپنی کتاب سے، اور چاہے طالب حدیث نے حدیث سنی اور پھر اس کو لکھ لیا ہو یا صرف سنا ہو اور لکھا نہ ہو (بلکہ زبانی یاد کرلیا ہو)۔ ب:… تحمل حدیث کے اس طریق کا رتبہ: جمہور کے نزدیک تحمّلِ حدیث کے جملہ طرق میں سے یہ سب سے اعلیٰ طریق ہے۔ ج:… استاد کی سنائی حدیث کے الفاظِ ادا: (۱) جب تک ہر طریقِ تحمّل کے لیے مخصوص الفاظ ادا رواج نہیں پائے تھے، استاد سے حدیث سننے والے کے لیے حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ ادا کرنا جائز تھا۔ ’’سَمِعْتُ‘‘ یا ’’حَدَّثَنِیْ‘‘ یا ’’اَخْبَرَنِیْ‘‘ یا ’’اَنْبَانِیْ‘‘ یا ’’قَالَ لِیْ‘‘ یا ’’ذَکَرَلِیْ‘‘ (یہ تو ابتدائے زمانہ کی بات تھی)۔ لیکن جب تحملِ حدیث کے ہر طریق کے لیے مخصوص الفاظ رواج پا گئے تو الفاظ کی تقسیم کچھ یوں قرار پائی۔
[1] ’’طرقِ تحمّل‘‘ سے مراد مشائخ سے حدیث لینے اور حاصل کرنے کی ہیئتیں اور صورتیں ہیں ، اور ’’صِیَغِ ادا‘‘ سے مراد وہ عبارتیں ہیں جن کو ایک محدّث طالبانِ حدیث کو حدیث روایت کرتے اور عطا کرتے وقت استعمال کرتا ہے مثلاً سَمِعْتُ یا حَدَّثَنِیْ یا اَخْبَرَنِیْ کے صیغے استعمال کرنا۔ (طحّان)