کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 217
تھی۔ البتہ نابالغ ہونے کی بابت یہ ضروری ہے تحمّلِ حدیث کے وقت وہ شخص ’’سنِ تمیز‘‘ کو پہنچ چکا ہو (جس میں اچھے بُرے کو جاننے اور سمجھنے کا قدرے ادراک پیدا ہو چکا ہوتا ہے)۔ ایک قول یہ ہے کہ تحملِ حدیث کے لیے بلوغت شرط ہے مگر یہ غیر معتمد قول ہے۔ کیوں کہ اہلِ اسلام نے ’’کم عمر صحابہ‘‘ جیسے حسن رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ حضرات کی روایت کو یہ فرق کیے بغیر قبول کیا ہے کہ آیا انہوں نے یہ حدیث بلوغت سے پہلے حاصل کی تھی یا بعد میں ۔ ۳۔ کس عمر میں سماعتِ حدیث کا آغاز کرنامناسب(اور پسندیدہ) ہے؟: (اس بابت متعدد اقوال ہیں ، جو یہ ہیں ): الف: …ایک قول یہ ہے کہ طالبِ علم سماعتِ حدیث کا آغاز تیس سال کی عمر میں کرے۔ یہ اہلِ شام کا قول ہے۔ ب: …ایک قول بیس سال کا ہے، یہ کوفیوں کا قول ہے۔ ج: …ایک دس سال کا ہے اور یہ اہلِ بصرہ کا قول ہے۔ د:… جب کہ بعد کی ان صدیوں (اور ہمارے زمانے) میں درست قول یہ ہے کہ جب سماعتِ حدیث کی اہلیت پیدا ہو جائے تو جتنی جلدی ممکن ہو سکے حدیث کی سماعت کا آغاز کردیا جائے۔ کیوں کہ اب احادیث کتابوں میں (جمع اور) منضبط کی جاچکی ہیں ۔