کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 216
بحث اوّل: کیفیتِ سماعتِ حدیث، تحمل حدیث اور صفتِ ضبط حدیث کا بیان ۱۔ تمہید: ’’سماعِ حدیث کی کیفیت‘‘ سے مراد ان باتوں کا بیان ہے جو اس شخص میں ہونی چاہئیں اور وہ باتیں اس کے لیے شرط ہیں جو مشائخ سے روایت یا تحمّل کی غرض سے حدیث کی سماعت کرنا چاہتا ہو تاکہ بعد میں ان احادیث کو دوسروں تک پہنچا سکے۔ جیسے ایک معین عمر کا وجوباً یا استحباباً شرط ہونا وغیرہ (جس کی تفصیل آگے آجائے گی)۔ اور ’’تحمل حدیث‘‘ سے مراد مشائخ سے حدیث لینے اور حاصل کرنے کے طرق کا بیان ہے۔ اور ’’ضبط حدیث کی صفت‘‘ سے مراد اس بات کا بیان ہے کہ طالب حدیث حدیث کو حاصل کرتے وقت کسی طرح ضبط اور محفوظ کرے جو اسے اس بات کے لائق بنادے کہ وہ (بعد میں ) اس حدیث کو ایسی صورت پر دوسروں کو روایت کر سکے جو لائقِ اطمینان ہو۔ علمائے مصطلح الحدیث نے ’’علوم الحدیث‘‘ کی اس نوع پر خاص توجہ دی ہے اور اس کے لیے نہایت دقیق اور عمدہ قواعد و ضوابط اور شروط مقرر کی ہیں ۔ اور تحمّل حدیث کے طرق میں فرق و امتیاز کیا ہے (کہ ہر طریق کی ایک جداگانہ حیثیت ہے) اور ان کے مراتب مقرر کیے ہیں جن میں سے بعض بعض سے زیادہ قوی ہیں اور ان علماء نے یہ اہتمام صرف حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر خصوصی توجہ دینے، اور حسن و خوبی کے ساتھ احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک شخص سے دوسرے شخص تک منتقل ہونے کی غرض سے کیا تاکہ ایک مسلمان کو اس بات کا اطمینان رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ عالیہ اس تک نہایت محفوظ اور عمدہ طریق سے پہنچے ہیں اور اسے اس بات کا پورا وثوق ہو کہ یہ طریقے دقّت و حفاظت اور سلامتی میں اپنی انتہا کو چھُو رہے ہیں ۔ ۲۔کیا تحمل[1] حدیث کے لیے مسلمان اور بالغ ہونا شرط ہے؟: اس بابت صحیح قول یہ ہے کہ تحمّل حدیث کے لیے نہ اسلام شرط ہے اور نہ بلوغت، البتہ یہ دونوں باتیں ادائے[2] حدیث کے لیے ضرور شرط ہیں ۔ جیسا کہ شروطِ راوی میں یہ بات بیان ہو چکی ہے۔ اس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسے مسلمان اور بالغ شخص کی اس حدیث کی روایت مقبول ہوگی جو اس نے اپنے مسلمان یا بالغ ہونے سے پہلے حاصل کی
[1] آسان لفظوں میں ’’تحمّل حدیث‘‘ کو ’’تحصیل حدیث‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں (علوم الحدیث، ص: ۳۰۵) لیکن بندہ عاجز مترجم اخیر کتاب تک ’’کتاب کی اصطلاح‘‘ کو ہی لکھے گا۔ [2] علامہ طحّان تحمل اور ادا کی آسانی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’تحمل یہ مشائخ سے حدیث کو لینا اور حاصل کرنا ہے۔ اور ’’ادا‘‘ یہ طالبانِ حدیث کو حدیث روایت کرنا اور عطا کرنا ہے۔(طحّان)