کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 213
د:… پھر وہ الفاظ ہیں جن میں (مجروح راوی پر) صراحۃً کذب بیانی کی تہمت ہو یا اس سے ملتے جلتے الفاظ ہوں : جیسے ’’فُلَانُ ٗ مُتَّھَمُ ٗ بِالکذبِ‘‘ (فلاں پر دروغ گوئی کی تہمت ہے) یا ’’مُتَّھَمُ ٗ بالوضع‘‘ (فلاں پر جعلی احادیث بنانے کا الزام ہے) یا ’’یَسْرِقُ الحدیث‘‘ (حدیث چوری کرتا ہے) یا ’’سَاقِطٌ ‘‘یا متروک یا ’’لیس بِثِقَۃٍ‘‘ (وہ غیر ثقہ ہے) وغیرہ۔ ھ: …پھر (شدتِ جرح میں ) ان الفاظ کا درجہ ہے جن میں راوی کو صاف صاف جھوٹا کہا گیا ہو یا ملتے جلتے الفاظ ہوں ۔ جیسے، ’’کذّابٌیا دَجَّالٌ یا وضَّاعٌ یا یَکْذِبُ (جھوٹ بولتا ہے) یا یَضَعُ (جعل ساز ہے)۔ و: …پھر ان الفاظ کا درجہ ہے جو کذب میں مبالغہ کرتے ہوں ۔ (اور یہ بدترین جرح ہے) جیسے ’’فُلَان اَکْذَبُ الناس‘‘ (یعنی وہ سب سے بڑا جھوٹا ہے یا زمانے کا جھوٹا ہے، یا جھوٹوں کا بھی باپ ہے، یا جھوٹوں کا سردار ہے) یا ’’الیہ المنتھی فی الکذب‘‘ (جھوٹ بولنا تو فلاں پر ختم ہے) یا ’’ھورکن الکذب‘‘ (وہ جھوٹ کی جڑ ہے)۔ ۴۔ مذکورہ مراتب کا حکم: الف: …جن رواۃ کے حق میں پہلے دو مراتب کے الفاظ بولے جاتے ہیں بلاشبہ ان کی حدیث ناقابلِ احتجاج ہے مگر ان کی حدیث صرف ’’اعتبار‘‘ کی غرض سے لکھی جاسکتی ہے۔ اگرچہ دوسرے مرتبہ والے رواۃ پہلے مرتبہ والوں سے کم ہیں ۔[1] ب:… رہ گئے وہ رواۃ جن کے حق میں آخری چار مراتب کے الفاظ بولے جاتے ہیں تو نہ تو وہ لوگ لائقِ احتجاج ہے اور نہ اس کی حدیث لکھے جانے کے قابل ہے اور نہ ان کی احادیث کو ’’اعتبار‘‘ کی غرض سے ہی لیا جائے گا۔ (بابِ دوم کی تینوں فصلیں ختم ہوئیں ) مشقی سوالات مندرجہ ذیل خالی جگہوں کو مناسب الفاظ سے پر کیجیے۔ ۱۔ وما أفۃ الأخبار الا……… ۲۔ مروء ۃ کا معنی ………ہے۔ ۳۔ محدثین نے راوی کی عدالت پرکھنے کے بارے میں …… کا مسلک قبول نہیں کیا۔ ۴۔ ’’ھو یقبل التلقین‘‘ ……… کا صیغہ ہے۔ ۵۔ ……صرف تب مقبول ہوگی جب مُفَسَّر ہو۔
[1] یعنی خفّتِ جرح میں مرتبہ کم ہے کہ دوسرے مرتبہ والوں پر جرح پہلے مرتبہ کے لوگوں سے زیادہ ہے۔ کما ھو ظاہر