کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 212
الحدیث‘‘ یا ’’فلان یُکْتَبُ حدیْثُہُ‘‘ ۲۔ مذکورہ مراتب میں سے ہر ایک کا حکم: الف: …جن رواۃ کے حق میں پہلے تین مراتب کے الفاظ بولے جاتے ہیں ، وہ سب قابلِ احتجاج ہیں ( کہ ان کی حدیث کو لیا جائے گا) اگرچہ خود ان میں (باہم فرقِ مراتب ہونے کی وجہ سے) کوئی دوسرے سے زیادہ قوی ہو۔ ب: …اور وہ لوگ جن کے حق میں چوتھے اور پانچویں درجے کے الفاظ لکھے جاتے ہیں وہ اگرچہ لائقِ احتجاج نہیں ہوتے البتہ ان کی احادیث کو لکھا بھی جائے گا اور ان کا ’’اِخْتبار‘‘[1]بھی کیا جائے گا۔ اگرچہ پانچویں مرتبہ والے چوتھے مرتبہ والوں سے کم درجے کے ہیں ۔ د:… رہ گئے وہ لوگ جن کے لیے چھٹے مرتبہ کے الفاظ بولے گئے ہیں تو وہ لوگ ناقابلِ احتجاج ہوتے ہیں البتہ ان کی حدیث صرف ’’اعتبار‘‘ کی غرض سے لکھی جائے گی ناکہ ’’اختبار‘‘ کے لیے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا عدمِ ضبط ظاہر ہوتا ہے۔ ۳۔جرح کے مراتب [2]اور ان کے الفاظ کا بیان: الف:… وہ الفاظ جو نرمی پر دلالت کریں (اور یہ سب سے نرم اور ہلکی جرح ہے) جیسے ’’فُلَان لَیِّنُ الحدیثِ‘‘ فلاں حدیث میں نرمی سے کام لیتا ہے، یا ’’فِیْہِ مَقَالُ‘‘ علماء نے اس راوی میں کلام کیا ہے۔‘‘ ب:… پھر (سخت اور شدید ہونے میں ) ان الفاظ کا مرتبہ ہے جو راوی کے ناقابل احتجاج ہونے پر صراحتہً دلالت کریں یا اس جیسے ملتے جلتے الفاظ (جو راوی کے ناقابلِ احتجاج ہونے کو بتلائیں )۔ جیسے ’’فلان لا یُحتَجُّ بہ‘‘ (اس کا معنی ظاہر ہے) یا ’’فُلَانُ ٗ ضعیف‘‘ یا ’’لہ مناکیر‘‘ (یہ منکر احادیث روایت کرتا ہے) ج:… پھر ان الفاظ کا درجہ ہے جو صراحتہً اس بات پر دلالت کریں کہ فلاں کی حدیث نہ لکھی جائے یا اس سے ملتے جلتے الفاظ ہوں : جیسے ’’فُلَانُ ٗ لَا یُکتَبُ حَدِیثُہُ‘‘ (فلاں کی حدیث نہ لکھی جائے) یا ’’لا تَحِلُّ الروایۃُ عنہ‘‘ (فلاں سے روایت کرنا جائز نہیں ) یا ’’ضعیف جِدٌّ‘‘ (وہ فلاں بہت ضعیف ہے) یا ’’واہٍ بَمرَّۃٍ‘‘ (فلاں کبھی بے حد کمزور بات کرتا ہے) وغیرہ وغیرہ۔
[1] ’’اختبار‘‘ سے یہ مراد ہے کہ ان کے ضبط کو پرکھا جائے گا، اور اس کی صورت یہ ہے کہ ان کی احادیث کو ثقہ اور ضابط رواۃ کی احادیث پر پیش کیا جائے گا اگر تو ان کی حدیث ثقات کی حدیث کے موافق نکل آئی تو ان کی حدیث کو حجت مانا جائے گا ورنہ نہیں ۔ اس تفصیل سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ جس راوی کو ’’صدوق‘‘ کہا جاتا ہے اس کی حدیث کو اختبار سے پہلے حجت نہیں مانا جائے گا۔ اور جن لوگوں نے ایسے رواۃ کی حدیث کو ’’حسن‘‘ کہا ہے جن کی بابت ’’صدوق’’ کے الفاظ آئے ہیں ، انہوں نے خطا کی ہے کیوں کہ ’’حدیثِ حسن‘‘ حجت ہوتی ہے۔ (اور صدوق کی حدیث بغیر اختبار کے حجت نہیں ہوتی) یہ تو ہے وہ اصطلاح جو ائمہ جرح و تعدیل کے ہاں متداول اور معروف ہے جب کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’تقریب التھذیب‘‘ میں لفظِ ’’صدوق‘‘ کی بابت اپنی ایک خاص اصطلاح استعمال کی ہے۔ واللہ اعلم۔ (طحّان) [2] مراتب کی یہ ترتیب ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ہے۔ اور اسے ’’ترتیب صعودی‘‘ کہتے ہیں ۔