کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 210
اور یہ کہ ان لوگوں نے طلبِ علم اور اخذِ حدیث کے لیے کہاں کہاں کی خاک چھانی (اور ان کا پائے طلب انہیں کن کن میدانوں ، صحراؤں ، جنگلوں ، دریاؤں ، آبادیوں ، ویرانوں ، وادیوں اور پہاڑوں میں لیے پھرتا رہا) اور یہ کہ ان کی اپنے شیوخ سے کب(اور کہاں اور کس حال میں ) ملاقات ہوئی (اور ملاقات کے بعد کوئی حدیث لی یا نہیں لی، یا کتنی لیں ، اور کب تک ساتھ رہے) وغیرہ وغیرہ اور یہ کہ انہوں نے حیاتِ مستعار کی کتنی گھڑیاں پائیں ۔ غرض ان سب تفصیلات کو ان علماء نے ایسی نادرئہ روزگار اور محیر العقول شکل میں پیش کیا کہ ان سے پہلے کسی کی عقل ان علمی موشگافیوں تک نہ پہنچ سکی۔ تاریخ کے اوراق اس کی مثل پیش کرنے سے عاجز ہیں بلکہ یہ دعویٰ بھی بے جا نہ ہوگا کہ دور جدید کی متمدن، مہذب، جدید اکتشافات کی تحدّیوں اور تعلّیوں سے مالامال قومیں بھی تراجم رجال اور رواۃِ حدیث پر مرتب کیے جانے والے ان ضخیم ’’اِنسائیکلو پیڈیاز‘‘ " Encyclopaedias" کے پاسنگ تک بھی نہیں پہنچ پائیں جو ان علمائے حدیث نے لکھ کر دنیا کے حوالے کردیئے اور رواۃ حدیث اور ان سے نقل کرنے والوں کے جملہ احوال کو سپردِ قلم کرکے رہتی دنیا تک انسانیت کو اپنا زیرِ بار منتِ احسان کرلیا۔ اللہ ہی ہے جو انہیں ان کی کوششوں کا ہمارے طرف سے بہترین بدلہ دے۔ قارئین کے حظِّ بصر کے لیے ذیل میں ، ان میں سے چند اہم اور مشہور کتابوں کے نام لکھے جاتے ہیں : ۱۔ ’’التاریخ الکبیر‘‘ اس کے مولف امام بخاری رحمہ اللہ ہیں (جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ) اس میں ثقہ اور ضعیف دونوں قسم کے رواۃ کا عام تذکرہ ہے۔ ۲۔ ’’الجرح و التعدیل‘‘ یہ ابن ابی حاتم کے رشحاتِ قلم ہیں ۔ اس میں بھی ثقہ اور ضعیف دونوں راویوں کا عام تذکرہ ہے بلکہ یہ پہلی کتاب کے (بہت حد تک) مشابہ ہے۔ ۳۔ ’’الثقات‘‘ ابن حبّان رحمہ اللہ کا تحریری گلدستہ ہے جو صرف ثقات کے بیان پر مشتمل ہے۔ ۴۔ ’’الکامل فی الضعفاء‘‘ ابن عدی کی علمی یادگار ہے۔ جیسا کہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہے اس میں صرف ضعفاء کے تراجم ہیں ۔ ۵۔ ’’الکمال فی اسماء الرجال‘‘ عبدالغنی مقدسی کا علمی شاہکار ہے۔ اس میں ثقہ اور ضعیف دونوں راویوں کا ذکر ہے۔ البتہ اس میں صرف ’’صحاح ستہ‘‘ کے رجال کے تراجم ہیں ۔ ۶۔ ’’میزان الاعتدال‘‘ علامہ ذہبی رحمہ اللہ کی تصنیف لطیف ہے۔ جو صرف ضعفاء اور متروک رواۃ (یعنی اگرچہ ان پر جرح کی گئی ہے مگر ان میں اس جرح کو قبول نہیں کیا گیا) کے تراجم پر مشتمل ہے۔ ۷۔ ’’تھذیب التھدیب‘‘ اس علمی شہ پارے کے مولف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ہیں ۔ جسے ’’تہذیب الکمال فی اسماء الرجال‘‘ کی تہذیبات اور مختصرات میں شمار کیا جاتا ہے۔ ۸۔ ’’تقریب التھذیب‘‘ یہ بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا علمی گنج گراں مایہ ہے۔ جو مولف موصوف کی اپنی کتاب ’’تہذیب التھدیب‘‘ کا اختصار ہے۔