کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 21
میں علامہ نووی رحمہ اللہ کی مختصر کتاب ’’التقریب‘‘ کو بھی نصاب میں داخل کر لیا۔ ان دونوں کتابوں کی علمی جلالت اور ان کے بے پناہ علمی فوائد و ثمرات کے باوجو دان کتابوں کے پڑھنے میں طلباء کو بعض انتظامی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا مثلاً:
بعض ابحاث کا بے جا طویل ہونا خصوصاً ابن صلاح رحمہ اللہ کی کتاب[1]کے بعض طول طویل مضامین (جن کا سمجھنا اور انہیں ضبط میں لانا طلباء کے لیے بے حد مشکل اور کٹھن تھا)
جب کہ بعض دوسرے مضامین میں بے حد اختصار تھا۔ جیسے: امام نووی رحمہ اللہ کی کتاب کے[2]بعض مقامات (جن کا حد سے زیادہ ایجاز بے حد اغلاق کا باعث بنا)۔
بعض عبارات کی مشکل تعبیر اور ان کا پیچیدہ اسلوب۔
بعض مباحث کا نامکمل ہونا[3] (جس سے کسی نتیجہ خیز بات اور حتمی نکتہ تک پہنچنا خاصا دشوار ہوتا تھا) مثلاً کسی مقام پر (کسی بحث کی) بنیادی تعریف مفقود تھی، کسی کی مثال پیش نہیں کی گئی، کہیں کسی بحث کا ثمرہ اور نتیجہ مذکور نہیں اور کہیں ( اس فن اور بحث سے متعلقہ) مشہور تصنیفات کے ذکر سے اعراض برتا گیا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔
اور اس فن سے متعلقہ متقدمین کی کتب کا حال بھی اس سے چنداں مختلف نہیں تھا بلکہ بعض کتابوں میں تو علومِ حدیث کی جملہ مباحث کو لیا ہی نہیں گیا تھا اور بعض کتب کے مضامین تہذیب و ترتیب کی خوبی سے یکسر خالی تھے اور اس کی وجہ شاید یا تو یہ تھی کہ یہ مذکورہ امور ان کے سامنے مثل آفتاب نصف النھار کے عیاں مثلِ بیاں تھے۔
اسی لیے ان حضرات نے ان امور کو ضبط تحریر میں لانا گوارا نہ کیا، یا ان کے زمانہ میں کچھ مباحث کو بے حد طویل اور مفصّل و مفسّر مذکور کرنا اس وقت کی ضرورت تھی وغیرہ وغیرہ۔ غرض ہمیں ان وجوہات کا ادراک ہو یا نہ ہو بہرحال ان امور سے اغماض برتا گیا تھا۔ ان جملہ مشکلات اور دشواریوں کو دیکھتے ہوئے میں نے ’’کلیۃ الشریعۃ‘‘ کے طلباء کے سامنے ’’مصطلح الحدیث و علومہ‘‘ کے فن پر طلباء کے سامنے ایک ایسی سہل اور آسان کتاب پیش کرنے کا فیصلہ کیا جو ان کے لیے اس فن کے قواعد و مصطلحات کو سمجھنا (اور انہیں ضبط میں لانا) آسان کردے اور اس مقصد کے حصول کے لیے میں نے ہر بحث کو چند نمبروار اور مسلسل فقروں میں تقسیم کیا، جس کی ابتداء اس بحث کی تعریف سے کی، پھر اس کی مثال پیش کی، پھر اگر اس کی اقسام تھیں تو ان کو شمار کروادیا اور آخر میں اس فن کی مشہور تصنیفات کا تعارف
[1] جیسے ’’معرفۃ کیفیۃ سماع الحدیث و تحملہ و صفۃ ضبطہ‘‘ کی بحث جو ۴۶ صفحات پر محیط ہے۔
[2] جیسے مثلاً ’’الضعیف‘‘ کی بحث جو تیرہ کلمات سے بھی متجاوز نہیں ۔
[3] اس کی مثال کے لیے ملاحظہ کیجیے علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’مقلوب‘‘ کی بحث، وہ لکھتے ہیں ، ’’مقلوب جیسے سالم سے مروی کوئی مشہور حدیث جسے ترغیب و تخصیض کی غرض سے ’’نافع‘‘ سے مروی ٹھہرا دیا گیا ہو، اسی طرح اہل بغداد کا امتحان کی غرض سے سو احادیث کی اسناد کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے مقلوب کرکے پیش کرنا اور امام ممدوح رحمۃ اللہ علیہ کا ان احادیث کو اپنی اصل صورت پر ان لوگوں پر پیش کرنا جس سے انہیں امام موصوف رحمۃ اللہ علیہ کی علمی عظمت کا اعتراف کرنا پڑا۔(کہ یہاں مقلوب کی تعریف پیش نہیں کی گئی اور نہ اس بحث کے دیگر متعلقات کو ہی پیش کیا گیا ہے بس مثال پیش کرکے بحث کو سمیٹ دیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔ )