کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 207
۱۲۔ سہل انگاری، قبولِ تلقین [1]اور کثرتِ نسیان میں معروف شخص سے حدیث لینے کا حکم:
(ذیل میں تینوں کا حکم علی الترتیب بیان کیا جاتا ہے):
الف: …جو شخص حدیث سننے یا سنانے میں متساہل مشہور ہو۔ جیسے وہ شخص جو سماعِ حدیث کے وقت سونے میں لاپرواہ[2] ہو یا ایسی اصل سے احادیث بیان کرے جس کا موازنہ اور مقارنہ نہ کیا گیا ہو۔ اس کی روایت غیر مقبول ہوگی۔
ب: … اور جو حدیث میں ’’تلقین‘‘ قبول کرنے میں مشہور ہو، وہ یوں کہ (دورانِ درس) اسے کسی بات کی تلقین کی گئی اور اس نے یہ معلوم کیے بغیر کہ یہ الفاظ اس کی حدیث کا ٹکڑا ہیں یا نہیں ، انہیں بھی اپنی حدیث سمجھ کر (حدیث میں ملاکر) بیان کردیا۔ ایسے شخص کی روایت بھی غیر مقبول ہوتی ہے(کیوں کہ اس کی احادیث میں غیر احادیث کا اختلاط ہوتا ہے جن میں امتیاز کا ملکہ ہر ایک کو نہیں ہوتا اور لوگ سب کچھ کو حدیث سمجھ بیٹھتے ہیں )۔
ج: …اور جو اپنی روایت میں بہت بھولتا ہو اس کی روایات کا غیر مقبول ہونا ظاہر ہے۔
۱۳۔ حدیث بیان کرکے بھول جانے والے کی روایت کا حکم:
الف: …ایسے شخص کی تعریف یہ ہے کہ یہ وہ شیخ اور استاذ ہے جسے وہ حدیث یاد نہ رہی ہو جو اس نے اپنے شاگرد کو کبھی سنائی تھی اور اس نے وہ روایت اپنے شیخ سے بیان بھی کی تھی۔ (دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ شخص ہے جسے اپنے شاگرد کو سنائی ہوئی حدیث یاد نہ رہی ہو جب کہ وہ شاگرد اس حدیث کو اپنے استاد سے ہی بیان کرتا ہو)
ب: …ایسے بھولنے والے کی روایت کا حکم: (اس بابت دو اقوال ہیں ، جو یہ ہیں ):
۱۔ اگر تو ایسا شخص اپنی (بیان کرکے بھول جانے والی) حدیث کی پورے جزم کے ساتھ نفی کرتا ہے مثلاً یوں کہے کہ، ’’ میں نے یہ حدیث روایت نہیں کی‘‘ یا ’’وہ (میرا شاگرد اِس حدیث کو میرے طرف منسوب کرنے میں ) مجھ پر جھوٹ بولتا ہے‘‘ وغیرہ، تو ایسے شخص کی حدیث ردّ ہوگی۔
۲۔ اور اگر وہ ایسی حدیث کی نفی میں تردّد کرے (نہ اس پر کھل کر انکار کرے اور نہ اس کا صاف صاف اقرار کرے) مثلاً یوں کہے، ’’میں نہیں جانتا‘‘ یا ’’مجھے یاد نہیں ‘‘ وغیرہ، تو ایسے مترددّ شخص کی یہ روایت مقبول ہوگی۔
ج: …اگر ان استاد اور شاگرد میں سے کوئی حدیث کو رد کردے تو کیا یہ ردّ دوسرے میں جرح بنے گا؟ (اس بابت صحیح مذہب یہ ہے کہ) یہ ردّ دونوں میں کسی کے لیے بھی جرح کا سبب نہ بنے گا کیوں کہ دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے
[1] تلقین کا لفظی معنی ہے، کسی سے اعادہ کرانے کے لیے کوئی بات کہنا (القاموس الوحید، ص: ۱۴۹۰) اور اصطلاحِ محدثین میں ’’حدیث بیان کرتے وقت درمیان میں کسی سامع کا اسے کسی لفظ کے ساتھ تلقین کرنا اور اعادہ کرنے کو کہنا یعنی بطورِ لقمہ کسی لفظ کو ذکر کرنا، مگر اس محدث کا یہ غور کئے بغیر کہ آیا یہ اس کی حدیث کا لفظ ہے بھی یا نہیں ، اس کو حدیث سمجھ کر بیان کر دینا‘‘ تلقین کہلاتا ہے (علوم الحدیث بتصرفٍ ص۲۱۵)
[2] یہ تو سنتے وقت سونے پر سرزنش ہے اور اس شخص کا کیا حکم ہوگا جو سناتے وقت سوتا ہو؟ اور اس پر طرفہ تماشا یہ ہو کہ ایسے شخص کو سامعین ٹھیک اس وقت ’’مَہْبَطِ اِلْھَام‘‘ ’’لاہوتی صفات‘‘ ’’قدرتِ خداوندی کا مظہر‘‘ ، ’’مکاشفات کا پیکر‘‘، اور اس کی کچی پکی برسرِ منبر نیند کی بڑبڑاہٹوں کو نوائے سروش، ندائے غیب اور پیامِ الٰہی سمجھتے ہوں ۔’’اعاذنا اللّٰہ من انقلاب القلوب‘‘ ۔