کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 206
ب: …کسی عالم کا کسی حدیث کے مضمون کے موافق فتویٰ دے دینا یا اس پر عامل ہو جانا اس حدیث کی صحت کی دلیل نہیں ۔ اور کسی عالم کی مخالفت (اور اس حدیث کے خلاف فتویٰ دے دینا) نہ تو اس حدیث کی صحت میں قدح اور ضرر ہے۔ اور نہ اس حدیث کے رواۃ کے حق میں جرح ہی ہے۔[1] اور ایک قول یہ ہے کہ کسی عالم کا عمل یا فتویٰ اس حدیث کے لیے ’’صحت‘‘ کا حکم رکھتا ہے علامہ آمدی رحمہ اللہ [2] وغیرہ علماء اصول نے اس قول کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ مگر اس مسئلہ میں طویل کلام ہے (جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں )۔ ۱۰۔ فسق و فجور سے تائب کی روایت کا حکم: (کبائر کے مرتکب ہونے کے بعد ان سے تائب ہونے والے کی روایت کے بارے میں دو قول ہیں ) : ۱۔ ایسے تائب کی روایت مقبول ہے (کیوں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے توبہ کرنے والے کا یہ اکرام فرمایا کہ گویا کہ اس سے گناہ سرزد ہی نہیں ہوا) ۔ ۲۔ البتہ جس کے سر جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن صدق و صداقت پر کذب کی تہمت کا داغ لگانے کی سعی نامشکور کا الزام ہو، اس کی سزا یہی ہے کہ تائب ہونے کے بعد بھی اس کی روایت ہرگز قبول نہ کی جائے (تاکہ اس کا یہ انجام بد دیکھ دوسروں کو عبرت و نصیحت ہو اور اس ناپاک حرکت کی کوئی دوسرا جرات نہ کرے)۔ ۱۱۔اُجرت لے کر احادیث بیان کرنے والے کا حکم: (اس بابت متعدد اقوال ہیں مثلاً) الف: …بعض کے نزدیک ایسے شخص کی روایت غیر مقبول ہے۔ جیسے امام احمد، اسحاق اور ابو حاتم کا یہی مذہب ہے۔ ب: …ابو نعیم فضل بن دکین وغیرہ دوسرے بعض حضرات کے نزدیک اس کی روایت مقبول ہے۔ ج: …البتہ اگر کسی شخص سے روایتِ حدیث میں مشغول ہونے کی بنا پر بیوی بچوں کی کفالت اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے اسباب نہ بن پڑیں تو ایسے شخص کے لیے ابو اسحاق شیرازی نے اجرت لینے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔[3]
[1] اے کاش! یہ اس قدر قیمتی اور حق و باطل میں فرق کردینے والے آفاقی اصول ان بے نصیبوں کی نگاہوں سے بھی گزر جاتے جن کا اوڑھنا بچھونا، متاعِ حیات اور زندگی کی کل جمع پونجی ’’ان کے بزرگ‘‘ اور ان کا ’’کہا گیا‘‘ ہے۔ ان ’’نصیبوں کے ماروں ‘‘ کی منڈی میں صرف ایک ہی سکہ چلتا ہے ’’ہمارے بڑے ہمارے لیے بس ہیں ‘‘ کاش اپنے ’’تیرہ‘‘ بختوں میں ہدایت کا اجالا کرنے کے لیے یہ لوگ اسلاف کی ان ’’کسوٹیوں پر اپنا ’’کھوٹا سکہ‘‘ پرکھتے!!!’’ویھدی من یشاء ویضل من یشاء‘‘ [2] یہ مشہور اصولی عالم اور دمشق کے معلم علامہ سیف الدین آمدی رحمہ اللہ متوفی ۶۳۱ھ بمطابق ۱۲۳۳ھ ہیں ۔ ’’الاِحکام فی اصول الاَحکام‘‘ ان کی مشہور تصنیف ہے۔ (المنجد فی الاعلام العربی ص۶۸) [3] بعینہٖ یہی صورت ہمارے اس نامسعود دور کی بھی ہے اسی لیے علماءِ حق نے درس و تدریس، افتاء، تصنیف و تالیف، اذان امامت اور حفظ کرانے میں مشغول ہونے والوں کے لیے اجرت لینے کو جائز قرار دیا ہے۔ اس کا درست اور صحیح ہونا احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے۔ (ابوسفیان)