کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 205
ابن صلاح لکھتے ہیں : ’’فقہ اور اصولِ فقہ میں یہی ظاہر اور مقرر (پختہ) ہے۔ اور حافظ خطیب رحمہ اللہ نے بتلایا ہے کہ یہ امام بخاری اور امام مسلم وغیرہ جیسے ائمہ دین، حفاظِ حدیث اور ناقدین کا مذہب ہے یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عکرمہ اور عمرو بن مرزوق جیسے رواۃِ حدیث سے بھی استدلال و احتجاج کیا ہے جن کی دوسروں نے جرح بیان کی ہے، اور امام مسلم رحمہ اللہ نے سوید بن سعید اور ایک جماعتِ رواۃ سے احتجاج کیا ہے جو مطعون ہونے میں مشہور ہیں ۔ اور امام ابو داؤد نے بھی یہی طریق اختیار کیا ہے۔ ان اکابر ائمہ محدثین کا یہ رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان حضرات کا یہ مذہب تھا کہ جرح وہی معتبر ہوگی جو مفسَّر ہوگی (ناکہ غیر مفسَّر اور مبھم) ۔[1]
۷۔ کیا جرح و تعدیل صرف ایک شخص کے قول سے ثابت ہو جاتی ہے؟
(اس بابت دو قول ہیں ): الف: …صحیح قول یہ ہے کہ صرف ایک آدمی کے قول سے بھی جرح یا تعدیل ثابت ہو جاتی ہے۔[2] ب: …اور ایک قول یہ ہے کہ دو آدمیوں کا ہونا ضروری ہے مگر یہ قول غیرمعتمد ہے۔
۸۔ جب ایک راوی میں جرح و تعدیل دونوں جمع ہو جائیں تو کیا کیجیے؟:
جب ایک راوی میں جرح و تعدیل دونوں اکٹھے ہو جائیں تو اب:
الف: …اس بابت معتمد اور معتبر قول یہ ہے کہ اگر جرح مفسّر ہو تو وہ تعدیل پر مقدم ہوگی۔[3]
ب: …جب کہ ایک قول یہ ہے کہ اگر معدِّلین کی تعداد جرح بیان کرنے والوں سے زیادہ ہو تو تعدیل کو مقدم کیا جائے گا مگر یہ قول کمزور اور غیر معتمد ہے۔
۹۔ کسی عادل کا ایک شخص سے روایت کرنے کا حکم:
(اس بابت تفصیل ہے جو درجِ ذیل ہے)
الف: …کسی عادل راوی کا محض کسی سے روایت کر دینا اس کی تعدیل شمار نہ ہوگی۔ یہ اکثر محدثین کا مذہب ہے۔ اور یہی صحیح ہے۔ البتہ ایک قول اس کے تعدیل ہونے کا بھی ہے۔ [4]
[1] ’’علوم الحدیث لا بن الصلاح ص۹۶ باختصار یسیر‘‘(طحّان)
[2] البتہ نام کی تصریح کے بغیر کسی کے حق میں عدالت و ضبط کے کلمات معتبر نہیں کیوں کہ ضروری نہیں کہ جو شخص ایک کے نزدیک معتبر و معتمد ہو وہ دوسرے کے نزدیک بھی ہو۔ لہٰذا کم از کم یوں کہے، ’’فلاں شخص ثقہ ہے‘‘ اور ’’فلاں معتمد ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ مگر یوں نہ کہے، ’’مجھے ایک ثقہ نے بیان کیا، ایک معتمد نے خبر دی۔ وغیرہ‘‘ (علوم الحدیث، ص: ۲۱۹۔ بتصرفٍ)
[3] اور اگر جرح مبھم ہو تو صحیح قول یہ ہے کہ تعدیل مقدم ہوگی کیوں کہ جرحِ غیر مفسَّر غیر معتبر ہوتی ہے (علوم الحدیث، ص: ۲۲۰ بحوالہ تدریب الراوی ج۱ ص ۳۰۹)
[4] غرض تعدیل کے الفاظ کی صراحت کے بغیر محض کسی ثقہ راوی کا روایت کرنا کسی کی تعدیل نہیں الاّیہ کہ اس محدث کا معمول ہی ثقہ راویوں سے روایت لینے کا ہو جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا صحیح بخاری میں معروف رویہ یہی ہے اور جیسے امام ابن خزیمہ کی شدتِ احتیاط مشہور ہے۔ الاّیہ کہ شاذ و نادر کبھی غیر ثقہ سے بھی روایت کردیں لیکن بہرحال ایسے محدثین کی صراحت کے بغیر بھی ان کی روایت ’’تعدیل‘‘ کہلائے گی۔ (علوم الحدیث، ص: ۲۲۰ بزیادۃٍ کثیرۃٍ)