کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 203
ب:… ضبط: اور ضبط سے محدثین کی مراد یہ ہے کہ راوی میں مخالفتِ ثقات، خراب حافظہ، زبانی اغلاط کی کثرت، غفلت اور کثرتِ اوہام میں سے کوئی بات بھی نہ پائی جاتی ہو۔[1] ۳۔ راوی کی عدالت کیوں کر ثابت ہوتی ہے؟ راوی کی عدالت دو باتوں میں سے کسی ایک کے ذریعے ثابت ہوتی ہے: الف: …یا تو علماء تعدیل اس کی عدالت کی تصریح بیان کریں ، چاہے سب بیان کریں یا ایک بیان کرے۔ ب: یا( علماء ، محدثین اور فقہاء کے درمیان اس کی عدالت کا) شہرہ اور چرچا ہو۔ چناں چہ جس شخص کی عدالت علماء میں مشہور ہو اور ہر ایک کی زبان پر اس کی مدح اور تعریف ہو، اس (کی عدالت) کے لیے یہی بات کافی ہو جاتی ہے کہ اس کے بعد اس کی عدالت کو صراحتہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں رہتی ۔جیسے (امتِ مسلمہ کے) مشہور (اور معتمد) حضرات ائمہ کرام جیسے ائمہ اربعہ[2] ، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ (جنہیں ’’سفیانین‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے) اور اوزاعی وغیرہ [3] ۴۔ ثبوتِ عدالت میں حافظ ابن عبدالبر کا مذہب: حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی اس باب میں رائے یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو زیورِ علم سے آراستہ ہو اور علم ہی میں شب و روز غرق رہتا ہو اور لوگوں میں اس کا یہی تعارف ہو، تو اس کے ان احوال کو عدالت پر محمول کیا جائے گا جب تک اس کی جرح کا کوئی امر کھل کر سامنے نہ آجائے۔‘‘ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اپنی یہ رائے قائم کرنے میں دراصل اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے استدلال کیا ہے: ’’یَحْمِلُ ہٰذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلَفِ عُدُوْلُہُ یَنْفُوْن عَنْہُ تَحْرِیْفَ الْغَالِّیْنَ ، وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِیْنَ وَتَأْوِیْلَ الْجَاھِلِیْنَ۔‘‘[4]
[1] اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ حدیث کو توجہ سے سنا ہو اور سننے سے لے کر اس کے نقل و بیان کرنے تک اس حدیث کو محفوظ رکھا ہو کہ اس کا کوئی حصہ ذہن سے نکل نہ جائے اور اس کے لیے حفاظت حدیث کے معروف ذرائع استعمال کئے ہوں خود تحریر کے ذریعے اور چاہے ذاتی یادداشت کے ذریعے اور اس بات کا بھی اہتمام رکھے کہ اس کی تحریر میں کوئی ردّ و بدل نہ ہو گیا ہو۔ حدیث کو یادداشت کے ذریعے محفوظ کرنے کو ’’ضبطِ صدر‘‘ کہتے ہیں کہ جب چاہے پوری حدیث من و عن بیان کر دے۔ اور تحریر کے ذریعے حدیث محفوظ کرنے کو ’’ضبط سطر‘‘ یا ’’ضبط تحریر‘‘ کہتے ہیں کہ سننے کے بعد سے لے کر بیان کرنے تک وہ حدیث تحریروں میں کسی قسم کے ردوبدل کے بغیر محفوظ ہو۔ (از علوم الحدیث ص۲۱۴ بتصرفٍ وزیادۃٍ کثیرۃ) [2] اس سے مراد امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ہیں ۔ اسی طرح صحاح ستّہ کے مولفین رحمہم اللہ بھی، جن میں سب سے بڑا نام امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، اسی سلسلۃ الذھب کی ایک کڑی ہیں ۔ [3] علماء نے عدالت کو مجروح کرنے والے اسباب پانچ گنوائے ہیں جن کو اسباب طعن دو راوی میں مفصّل بیان کیا جاچکا ہے اور ان کی مزید تفصیل باب ہذا کی فصلِ سوم ’’مراتبِ جرح و تعدیل‘‘ میں آرہی ہے۔ [4] رواہ ابن عدی فی الکامل وغیرہ۔ عراقی کہتے ہیں : اس حدیث کے سب طریق ضعیف ہیں جن سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا‘‘ البتہ علماء نے اس حدیث کے کثرتِ طرق کی بنا پر اس کو حسن کہا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں ’’التدریب ج۱ ص۳۰۲۔۳۰۳ (طحّان)