کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 202
فصل اوّل
راوی اور اس کی قبولیت کی شروط کا بیان
۱۔ تمہیدی مقدمہ:
چوں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ ہم تک روایانِ حدیث کے ذریعے پہنچی ہیں اس لیے حدیث کی صحت اور عدمِ صحت کی معرفت میں یہی طبقہ پہلی بنیاد اور پہلی اینٹ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات علماء نے رواۃ (حدیث کے احوال اور ان کے تلاش و تحقیق اور تتبعّ) کی طرف خصوصی توجہ دی اور ان سے حدیث قبول کرنے کے لیے نہایت دقیق اور ایسی پختہ شروط مقرر کیں جو ان کی فکر کی گہرائی، سوچ کی درستی اور نہایت عمدہ لائحہ عمل کی غماز ہیں ۔
ان علماء نے کچھ شروط تو راوی کے لیے مقرر کیں ، جب کہ کچھ دیگر شروط حدیث و اخبارکے قبول کرنے کے لیے عاید کیں اور یہ ان علماء کا ایسا (لاجواب اور عظیم الشان) علمی کارنامہ کہ اقوام عالم میں سے کوئی قوم اس کی نظیر نہ پیش کر سکی (اور نہ پیش کر سکتی ہے)۔ یہاں تک کہ آج کے (سائنسی، علمی اور تحقیقی) دور کا دامن بھی اس کی مثال سے خالی ہے حالاں کہ (سائنسی ترقی کے فریب خوردہ) متجد دین (ہروقت) یہ ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں کہ آج میتھڈالوجی اور دقیق تحقیقات کا دور ہے لیکن اس (قدر پروپیگنڈے) کے باوجود بھی ان (سوشلائزڈ اور ترقی یافتہ ) لوگوں نے نقلِ اخبار میں ان شروط کو لاگو نہیں کیا جو ’’علماء مصطلح الحدیث‘‘ نے راوی میں لگائی ہیں بلکہ ان سے کم بھی نہیں لگائیں (بلکہ نقلِ اخبار میں حزم و احتیاط کی شروط کو تو کیا اختیار کرنا، الٹا آج کے ترقی یافتہ لوگ افواہیں پھیلانے اور غلط باتوں کی ترویج کے لیے نت نئے اور حیرت انگیز طریقے اختیار کر رہے ہیں )۔ یہی وجہ ہے کہ نقلِ اخبار (ذرائع ابلاغ اور نشرو اطلاعات میں ) بعض سرکاری خبر رساں ایجنسیوں کا کردار ذرا بھی لائقِ اعتماد نہیں اور نہ ان کی صداقت پر بھروسہ ہی کیا جاسکتا ہے اور اس (بات سے ان ترقی یافتہ لوگوں کے عاجز ہونے) کی وجہ ان کی اخبار کے ناقلین اور رواۃ کا مجہول ہونا ہے (اور کسی خبر کے لیے اس سے بڑھ کر آفت اور کیا ہوگی کہ اس کا راوی مجہول ہو، اسی لیے کہتے ہیں ) ’’اور خبر کی آفت اس کے راوی ہی تو ہیں ۔‘‘ اور ایسا اکثر ہوا کہ (ان لوگوں نے ایک بات اڑائی مگر) تھوڑے ہی عرصہ بعد اس کی عدمِ صحت مثل آفتاب نیمروز عالم آشکارا ہوگئی۔
۲۔ راوی کی مقبولیت کی شرائط:
جمہور علماء محدثین اور فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ راوی کے مقبول ہونے کی دو بنیادی شروط ہیں جو یہ ہیں :
الف: …عدالت: اور اس سے علماء محدثین اور فقہاء کی مراد یہ ہے کہ راوی مسلمان، عاقل، بالغ، اسباب فسق و فجور سے خالی (اور دور و نفور) اور خلافِ مروت (اور خلافِ متانت و وقار) امور سے اپنا دامن صاف رکھتا ہو۔[1]
[1] اور یہ اس راوی کا اکثر حال ہو البتہ اگر کبھی سوئے اتفاق سے خلافِ عدالت کوئی فعل سرزد ہو گیا تو اس سے راوی کی عدالت متاثر نہ ہوگی بشرطیکہ اس پر اصرار نہ ہو۔ (علوم الحدیث، ص: ۲۱۳ بتصرفٍ)