کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 200
مشقی سوالات مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے۔ ۱۔ کیا تابعی کے قول کو متصل حدیث قرار دیا جاسکتا ہے؟ ۲۔ ’’ زیادتیٔ ثقہ‘‘ سے کیا مراد ہے؟ ۳۔ زیادتیٔ ثقات کو موضوع سخن بنانے والے علما کے نام تحریر کیجیے۔ ۴۔ ابن صلاح اور امام نووی کے نزدیک ثقہ کا اضافہ کس صورت میں مقبول ہوگا؟ ۵۔ زیادتیٔ ثقہ مقبول اور غیر مقبول کو مثال کے ساتھ واضح کیجیے۔ ۶۔ اعتبار کسے کہتے ہیں ؟ نیز اس سے کیا مقصود ہوتا ہے؟ مندرجہ ذیل میں سے غلط اور صحیح کی نشان دہی کیجیے۔ ۱۔ متصل اور موصول کی اصطلاحات ایک ہی مفہوم رکھتی ہیں ۔ ۲۔ زیادتیٔ ثقہ مخالفتِ ثقہ قرار پاتی ہے کیوں کہ اضافہ مخالفت کی ہی ایک شکل ہے۔ ۳۔ ثقہ کی طرف سے کیا جانے والا اضافہ محض متن میں ہوتا ہے۔ ۴۔ شاہد اور متابع میں فرق یہ ہے کہ متابع میں بیان کرنے والا صحابی بھی ایک ہوتا ہے جب کہ شاہد میں صحابہ مختلف ہوتے ہیں ۔ ۵۔ کچھ محدثین کے نزدیک اشتراک اگر الفاظ میں ہوتو اس روایت کو ’متابع‘ اور مفہوم میں ہوتو اس روایت کو شاھد کہا جاتا ہے۔ ۶۔ الأم امام مالک کی حدیث پر بڑی ضخیم کتاب ہے۔ عملی کام: …’’لَا نِکَاحَ اِلاَّ بِوَلیٍّ‘‘ والی حدیث میں زیادتیٔ ثقہ کی کون سی شکل پائی جاتی ہے؟ نیز بتائیے کہ کیا یہ حدیث جمہور اہل علم کے اصول کے مطابق مقبول ہوگی یا قابل تردید؟ عملی کام: …مندرجہ ذیل حدیث سے کا مطالعہ کیجیے۔ اور نیچے دئیے گئے سوالات حل کیجیے: ’’اَلشَّھْرُ تِسْعٌ وَّتِسْعُوْنَ فَلَا تَصُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوُا الْھِلَالَ وَلَا تُفْطِرُوْا حَتّٰی تَرَوْہُ، فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاَکْمِلُوا الْعِدَّۃَ ثَلَاثِیْنَ۔‘‘ ۱۔ کیا یہ حدیث غریب ہے؟ ۲۔ اگر اس حدیث کو متابعت حاصل ہے تو متابعت کی کون سی شکل ہے؟ ۳۔ کیا اس حدیث کو شواہد حاصل ہیں ؟ ۴۔ کیا آپ نے اس حدیث میں اعتبار سے کام لیا ہے؟ وضاحت کیجیے۔