کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 196
ج: …حکم اکثر رواۃ کا ہے۔ یہ بعض محدثین کا قول ہے۔
د: …حکم احفظ (یعنی زیادہ ضبط والے) رواۃ کا ہے۔ یہ بھی بعض محدثین کا قول ہے۔
۷۔ ’’زیادۃ فی الاسناد‘‘ کی مثال:
اس کی مثال یہ حدیث ہے، ’’لَا نِکَاحَ اِلاَّ بِوَلیٍّ‘‘ ( ولی کی (اجازت کے) بغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘
(اب یہ حدیث دو طرح سے مروی ہے، وہ یوں کہ)
یونس بن ابی اسحاق سبیعی، ان کے بیٹے اسرائیل بن یونس اور قیس بن ربیع تینوں نے اس حدیث کو ابو اسحاق سے مسند اور متّصل روایت کیا ہے (اور یہ روایت اسناد میں زیادتی کے ساتھ ہے کیوں کہ یہاں مرسل سند کو مسند اور متّصل بنا کر روایت کیا گیا ہے)۔
اور اس حدیث کو سفیان ثوری اور شعبہ بن حجاج نے ابو اسحاق سے ہی مرسل روایت کیا ہے۔ [1]
مطلب پنجم … اعتبار، مُتَابِع اور شَاھِد کا بیان
۱۔ ہر ایک کی تعریف:
الف: …الاعتبار: لغوی تعریف: لفظ اعتبار ’’اِعْتَبَرَ‘‘ فعل سے مصدر ہے اور اعتبار کا معنی ہے، ’’کچھ امور پر نگاہِ غوروتدبر ڈالنا تاکہ ان کے ذریعے انہی کی جنس کی دوسری چیزوں کو جانا جا سکے۔
اصطلاحی تعریف:
(محدثین کی اصطلاح میں ) اعتبار سے مراد کسی حدیث کے دوسرے طرق کو تلاش کرنا اور ان کی جستجو کرنا ہے جس کی روایت میں کوئی راوی متفرد ہو، تاکہ یہ جانا جاسکے کہ آیا کوئی دوسرا راوی اس حدیث کی روایت میں اس کے ساتھ شریک ہے یا نہیں ؟[2]
[1] اس مثال اور اس کے مرسل اور موقوف ہونے میں رواۃ کے اختلاف کے لیے دیکھیں ’’الکفایۃ ص۴۰۹ ومابعدھا‘‘ (طحّان)
[2] اور اگر کسی دوسرے نے روایت کی ہے تو اس کی روایت پہلی کے موافق ہے یا مخالف، اگر موافق ہے تو لفظی موافقت ہے یا معنوی۔ اور دونوں کی روایت ایک صحابی سے ہے یا الگ الگ صحابی سے۔ اور اگر دوسرے کی روایت میں مخالفت ہے تو دونوں کے راویوں کا باہم تقابل کیا ہے کہ کس حدیث کے رواۃ کو دوسری حدیث کے رواۃ پر ترجیح دی جائے وغیرہ وغیرہ۔ غرض متفرد راوی کی حدیث میں ان پہلوؤں پر غور کرنے کانام اصطلاحِ محدثین میں ’’اعتبار‘‘ کہلاتا ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۲۰۶ ملخصاً وبتصرفٍ وزیادۃٍ)
علامہ اسعدی نے اس مقام پر ایک نہایت مفید خلاصہ لکھا ہے جس کا ذکر فائدہ سے خالی نہیں ۔ آپ لکھتے ہیں : ’’اگر تحقیق سے معلوم ہو جائے کہ متفرد راوی کے سوا کسی دوسرے نے اس حدیث کو روایت نہیں کیا تو وہ حدیث ’’فرد‘‘ اور غریب کہلائے گی جس کے مفصّل احکام گزشتہ میں بیان ہو چکے ہیں اور اگر کسی دوسرے نے اس کے موافق حدیث و روایت کی ہے تو آئندہ مذکورہ ترتیب کے موافق اس دوسری حدیث کو متابع اور شاہد کہیں گے۔ اور اگر کوئی حدیث مخالفت کے ساتھ روایت ہے تو اس میں وہ تفصیلات جاری ہوں جو ’’شاذ‘‘ اور ’’منکر‘‘ کے بیان میں ذکر ہوئی ہیں ۔ (علوم الحدیث، ص: ۲۰۶ ملخصاً)