کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 194
۵۔ متن میں زیادتی کی مثالیں : (ذیل میں زیادتی کی تینوں قسموں ، زیادتی غیر منافی، زیادتی منافی اور بعض وجوہ کے اعتبار سے منافی زیادتی کی مثالوں کو علی الترتیب بیان کیا جاتا ہے جب کہ ان کے حکم کو اوپر بیان کر دیا گیا ہے)۔ الف: زیادتی غیر منافی کی مثال: اس کی مثال کتے کے برتن میں منہ مارجانے کی بابت مسلم شریف کی (یہ) حدیث[1] (’’اِذَا وَلَغَ الْکَلْبُ فی اِنَائِ اَحَدِکُمْ فَلْیَغْسِلْہُ سَبْعَ مِرَارٍ‘‘) ہے (کہ جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں منہ مار جائے تو چاہیے کہ وہ اس برتن کو سات مرتبہ دھوئے) جو علی بن مُسہر کے طریق سے ’’عن ابی رَزِیْنٍ و ابی صالح عن ابی ھریرۃ رضی اللَّہ عنہ ‘‘ کی اسناد کے ساتھ مروی ہے جس میں ’’فَلْیُرِقْہُ‘‘ کا کلمہ زائد ہے(جس کا معنی ہے کہ ’’پھر اس (دھوون) کو بہادے) کہ اعمش کے اصحاب میں سے دوسرے تمام حفاظِ حدیث نے اس کلمہ کو ذکر نہیں کیا انہوں نے تو اس حدیث کو صرف ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے، ’’اِذَا وَلَغَ الْکَلْبُ فِیْ اِنَائِ اَحَدِکُمْ فَلْیَغْسِلْہُ سَبْعَ مِرَارٍ‘‘ بس پھر یہ زیادتی اس حدیث کی طرح ہوگی جس میں علی بن مسہر جیسا ثقہ راوی متفرد ہو۔ لہٰذا ایسے راوی کی یہ زیادتی مقبول ہوگی۔[2] ب: …زیادتیٔ مُنَافِی کی مثال: یہ حدیث ہے، ’’یَوْمُ عَرَفَۃَ وَیَوْمُ النَّحْرِ وَاَیَّامُ التَّشْرِیْقِ عِیْدُنَا اَھْلَ الْاِسْلَامِ ! وَھِیَ اَیَّامُ اَکْلٍ وَشُرْبٍ‘‘ ’’اے اہل اسلام یومِ عرفہ (نویں ذی الحجہ) یومِ نحر (عید قربان کا دن) اور ایّام تشریق (۱۱،۱۲،۱۳ ذی الحجہ کے ایام) ہمارے عید کے دن ہیں اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں ۔‘‘ اس حدیث میں ’’یومُ عرفۃ‘‘ کے الفاظ زائد ہیں ۔ کیوں کہ اس حدیث کے تمام طرق اس زیادتی کے بغیر ہیں ۔ یہ اضافہ صرف موسی بن علی بن رباح نے اپنے والد سے، حضرت عقبہ بن عامر کے واسطہ سے نقل کیا ہے جب کہ اس حدیث کو (اس اضافہ کے بغیر) امام ترمذی اور امام ابو داؤد وغیرہ نے روایت کیا۔(چوں کہ اس حدیث میں موسی نے دوسرے ثقہ بلکہ زیادہ ثقہ راویوں کے خلاف[3] روایت کیا ہے۔ اس لیے یہ حدیث شاذ کے حکم میں ہوگی اور مردود ہوگی) ج: …بعض وجوہ سے منافی زیادتی کی مثال: اس کی مثال مسلم کی وہ روایت ہے جو ابو مالک اشجعی کے طریق سے
[1] اس کے لیے دیکھیں :’’صحیح مسلم بشرح نووی ج۳ ص۱۸۲ وما بعدھا‘‘ میں روایاتِ حدیث (طحّان) [2] اور اس روایت کا زائد کلمہ دوسرے ثقہ راویوں کی روایت کے اس لیے منافی نہیں کہ ’’بہانا‘‘ دھونے کو مستلزم ہے کہ جِس چیز کو دھویا جائے گا اس کی دھوون کو بھی ضرور بہایا جائے گا۔ گویا کہ علی بن مسہر نے دھونے کانتیجہ کے اعتبار سے ذکر کیا ہے۔ واللہ اعلم [3] یہاں دوسرے راویوں کے خلاف روایت بایں معنی ہے کہ کھانے پینے کے دن عید قرباں اور اس کے بعد والے دن ہوتے ہیں ناکہ قربانی سے پہلے کے دن۔ لہٰذا یومِ عرفہ کا یومِ اکل ہونا یومِ نحر کے ’’یوم اکل‘‘ ہونے کے منافی ہے۔ واللہ اعلم۔