کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 193
الف: …متن میں زیادتی یوں ہو سکتی ہے کہ کوئی کلمہ یا جملہ بڑھا دیا جائے۔ ب: …اور اسناد میں زیادتی کی یہ صورت ہو سکتی ہے کہ موقوف سند کو مرفوع یا مرسل کو موصول بنا دیا جائے۔ ۴۔ متن میں زیادتی کا حکم: متن میں زیادتی کے حکم (یعنی اس کے درست یا نادرست ہونے) کی بابت علماء کے متعدد اقوال ہیں ۔ الف: …بعض نے اس زیادتی کو مطلقاً مقبول کہا ہے۔ ب: …بعض نے اسے مطلقاً رد کیا ہے۔ ج: …اور بعض نے اس میں یہ تفصیل کی ہے کہ اگر ایک راوی نے وہ حدیث پہلے بغیر زیادتی کے روایت کی پھر اس کو زیادتی کے ساتھ روایت کیا توانہوں نے اس زیادتی کو رد کردیا۔ لیکن اگر بعد میں کسی اور نے بھی وہی حدیث اس زیادتی کے ساتھ روایت کی تو اس زیادتی کو قبول کرلیا۔[1] علامہ ابن صلاح رحمہ اللہ نے اس زیادتی کو رد و قبول کے اعتبار سے تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ اور یہ بہت عمدہ تقسیم ہے امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اس کی موافقت کی ہے، وہ تقسیم درجِ ذیل ہے: الف: …وہ زیادتی جو دوسرے ثقہ یا زیادہ ثقہ راویوں کی روایت کے منافی نہ ہو۔[2] اس کا حکم یہ ہے کہ یہ زیادتی مقبول ہے کیوں کہ یہ زیادتی (اس صورت میں ) اس حدیث کی طرح ہے جس کے ایک جملہ کی روایت میں ایک ثقہ راوی دوسرے ثقہ راویوں سے متفر د ہو۔ ب: …وہ زیادتی جو ثقہ یا زیادہ ثقہ راویوں کی روایت کے منافی ہو( اور اس کو ’’زیادتیٔ مُنَافی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے) اس کا حکم یہ ہے کہ ایسی زیادتی مردود ہے جیسا کہ شاذ کے حکم میں بیان ہو چکا ہے۔ ج: …وہ زیادتی جس میں ثقہ یا زیادہ ثقہ راویوں کی روایت کے ساتھ (کلی منافات تو نہ ہو بلکہ) ایک نوع کی (یعنی بعض وجوہ سے) منافات ہو۔ منافات کی یہ قسم دو باتوں میں منحصر ہوتی ہے: ۱۔ تقییدِ مطلق (یعنی مطلق کو مقیّد کرنا) ۲۔ تخصیصِ عام (یعنی عام کو خاص کرنا) (لطف کی بات یہ ہے کہ) علامہ ابن صلاح نے اس قسم کا حکم بیان کرنے سے سکوت کیا ہے البتہ امام نووی رحمہ اللہ اس قسم کے بارے میں یہ فرماتے ہیں : ’’صحیح یہ ہے کہ یہ آخری قسم بھی مقبول ہے۔‘‘[3]
[1] دیکھیں علوم الحدیث لا بن الصلاح، ص: ۷۷، الکفایۃ ص۴۲۴ وما بعدھا۔ (طحّان) [2] یہ اس کو ’’زیادتیء غیر منافی‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۹۴) [3] دیکھیں ’’التقریب مع التدریب ج۱/ص۲۴۷ اور امام شافعی اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب بھی اس نوع کے قبول کرنے کا ہے جب کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اس کو ردّ فرماتے ہیں۔(طحّان) جب کہ علامہ اسعدی رحمۃ اللہ علیہ ’’علوم الحدیث ص۱۹۵‘‘ پر لکھتے ہیں ’’اور احناف کے نزدیک بھی تھوڑی سی تفصیل کے ساتھ یہ قسم مقبول ہے‘‘۔ واللہ اعلم