کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 192
اوالی الزہری ، او مالک‘‘ وغیرہ کہ ’’یہ حدیث (مثلاً) ابن مسیب یا زہری یا مالک تک (جو مشہور تابعین میں سے ہیں ) متّصل ہے۔‘‘ ایک قول یہ ہے کہ ، ’’اس میں باریک بات اور نکتہ یہ ہے کہ اقوالِ تابعین کو ’’مقاطیع‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ پس اقوالِ تابعین پر ’’متّصل‘‘ کا اطلاق ایسے ہے جیسے ایک شی کے باعتبار لغت کے دو متضاد وصف بیان کیے جائیں ۔‘‘[1] ۳… زیاداتِ ثقات ۱۔ زیاداتِ ثقات سے کیا مراد ہے؟: ’’الزیادات‘‘ یہ ’’زیادۃ‘‘ کی جمع ہے (جس کا معنی زیادتی اور اضافہ ہے) اور ’’الثقات‘‘ یہ ’’ثقۃ‘‘ کی جمع ہے اور ثقہ عادل اور ضابط راوی کو کہتے ہیں ۔ اب ’’زیادۃِ ثقہ‘‘ سے مراد ’’دیگر ثقہ راویوں سے جنہوں نے اس حدیث کو بیان کیا ، بیان کیے جانے والے وہ زائد الفاظ ہیں جو ہم کسی ثقہ راوی کی کسی حدیث میں دیکھتے ہیں ۔ [2] ۲۔ زیادتیٔ ثقات کو موضوعِ سخن بنانے اور اس پر خصوصی توجہ دینے والے مشہور محدثین اور علماء: بعض ثقہ راویوں کی بعض احادیث میں ان زیادتیوں اور اضافوں نے کچھ علماء کو اپنی طرف متوجہ کیا چناں چہ انہوں نے ان اضافوں کو ڈھونڈ نکالنے کا بیڑا اٹھایا اور وہ ان کو جمع کرنے اور ان کی معرفت حاصل کرنے کے لیے کمربستہ ہو گئے (مگر یہ کوئی اتنا آسان کام نہ تھا بلکہ ہتھیلی پر سرسوں اگانے کے مترادف تھا۔ اس لیے ہر کوئی اس میدان میں قدم نہ جما سکا سوائے معدود ے چند کے جنہیں قدرتِ خداوندی نے اس فن کی خوبیوں سے آراستہ اور صلاحیتوں سے مالامال کیا ہوا تھا) چناں چہ (اس میدان میں ) جن علماء نے خاص شہرت حاصل کی، وہ یہ ہیں : الف: …ابوبکر عبداللہ بن محمد بن زیاد نیشاپوری ب: …ابو نُعیم جرجانی ج: …ابو الولید حسّان بن محمد قرشی ۳۔ زیادتی ثقات کا محل وقوع: یہ زیادتی متن بھی واقع ہوتی ہے اور سند میں بھی۔ چناں چہ
[1] یعنی ایک طرف تو ان اقوال کا نام ’’مقاطیع‘‘ رکھا گیا ہے جو ’’مقطوع‘‘ کا جمع منتہی المجموع کا مَفَاعِیْل کا وزن ہے جس میں لغت کے اعتبار سے ’’قطع‘‘ کا معنی پایا جاتا ہے اور ساتھ ہی ان ہی اقوال کو ’’متّصل‘‘ کا نام بھی دے دیا جائے جن کا لغوی معنی لفظ ’’وصل‘‘ سے ہے یعنی ملنا اور وصل اور قطع ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ تو یہ باعتبار لغت کے ایک ہی شے کے دو متضاد وصف بیان کرنا ہوا۔ فقط واللہ اعلم۔ [2] زیادتی ثقات دراصل مخالفتِ ثقات کا ہی دوسرا پہلو ہے، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ میں مذکورہ مخالفتِ ثقات کی اقسام دراصل اس اصل کی جزئیات ہیں ۔ لیکن چوں کہ محدثین نے ان کے مستقل عناوین مقرر کئے ہیں اس لیے زیادتی ثقات کو ایک امتیاز حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین زیادتی ثقات کو مستقل ایک علم و فن قرار دے کر اس سے بحث کرتے ہیں ‘‘ (علوم الحدیث ملخصاً وبتصرفٍ وزیادۃٍ، ص: ۱۹۳ )