کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 191
۲… حدیث مُتَّصِل ۱۔ حدیثِ متّصل کی تعریف: الف: …لغوی تعریف: لفظ متّصل ’’اِتَّصَلَ‘‘ فعل سے (جو مثال واوی ازبابِ افتعال ہے)اسمِ فاعل کا صیغہ ہے( جس کا معنی ہے ملا ہوا ہونا، ملنا اور جڑنا) اور یہ ’’اِنْقَطَعَ‘‘ کی ضد ہے (جس کا معنی کٹنا اور الگ ہونا ہے) حدیث کی اس نوع کو ’’موصول‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ب: …اصطلاحی تعریف: (محدثین کی اصطلاح میں )متّصل وہ حدیث ہے جس کی سند متصل ہو (کہ اس کے تمام رواۃ مذکور ہوں ، کوئی ذکر سے رہ نہ گیا ہو) چاہے وہ حدیث مرفوع ہو یا موقوف اور جس پر چاہے موقوف ہو (چاہے صحابی پر اور چاہے تابعی پر) [1] ۲۔ حدیث متّصل کی مثال: (چوں کہ حدیث متصل ’’مرفوع‘‘ بھی ہو سکتی ہے اور ’’موقوف‘‘ بھی جیسا کہ تعریف میں مذکور ہوا۔ اس لیے اس کی دو بنیادی قسمیں بنیں ، جن میں سے ہر ایک کی مثال کو ذیل میں بیان کیا ہے)۔ الف:… متّصلِ مرفوع کی مثال: جیسے ، ’’مالک عن ابن شھابِ ، عن سالم بن عبداللّٰہ ، عن ابیہ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہ قال کذا … الحدیث‘‘[2] ب:… متصل موقوف کی مثال: جیسے: ’’مالک عن نافع ، عن ابن عمر انہ قال کذا…… الحدیث۔‘‘ [3] ۳۔ کیا کسی تابعی کے قول کو حدیث متّصل کہہ سکتے ہیں ؟ علامہ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’رہے تابعین کے اقوال جب کہ ان کی اسانید ان تک متصل ہوں تو حالت اطلاق میں (یعنی اتصال کی تصریح کے بغیر) انہیں حدیث متّصل نہیں کہہ سکتے البتہ قید کے ساتھ انہیں حدیث متّصل کہہ سکتے ہیں اور ان کے کلام میں ایسا واقع بھی ہوا ہے جیسے رواۃِ حدیث کا یہ کہنا، ’’ھذا مُتَّصِل الی سعید بن المَسیّبِ ،
[1] التقریب مع التدریب ۔ نوع المتّصل ۱/۱۸۳(طحّان) [2] یعنی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پوری سند مذکور ہے اور کوئی راوی ذکر ہونے سے نہیں رہ گیا اس لیے ایسی اسناد والی حدیث کو متّصلِ مرفوع کہیں گے۔ (علوم الحدیث، ص: ۵۲ بزیادۃٍ کثیرۃٍ) [3] یعنی اگرچہ اس کی اسناد متّصل ہے کہ جملہ رواۃ مذکور ہیں مگر یہ اسناد صحابیٔ رسول حضرتِ ابن عمرؓ پر موقوف ہے۔