کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 187
ب: …مقطوعِ فعلی کی مثال: اس کی مثال ابراہیم بن محمد بن منتشر کا یہ قول ہے، ’’مسروق (جب نماز کا وقت آجاتا تھا تو) اپنے اور گھر والوں کے درمیان پردہ گرادیتے اور پھر نماز کی طرف متوجہ ہوتے اور ان کو دنیا کے حوالے کر (کے خود کو یادِ الٰہی میں غرق کر) دیتے تھے۔‘‘[1]
۴۔ حدیث مقطوع سے استدلال کرنے کا حکم:
حدیث مقطوع کو احکامِ شرعیہ میں سے کسی کے لیے بھی حجت اور دلیل نہیں بنایاجاسکتا چاہے اس کی قائل کی طرف نسبت بھی صحیح ہو کیوں کہ یہ کسی ایک مسلمان کا قول یا فعل ہوتا ہے، پھر اگر تو کوئی قرینہ اس کے مرفوع ہونے کا ہو مثلاً کوئی راوی تابعی کے ذکر کے وقت ’’یَرْفَعُہٗ‘‘ کے کلمات کہہ دے، تو اس وقت اس مقطوع حدیث کو ’’مرفوعِ مرسل‘‘ کے حکم میں شمار کیا جائے گا۔[2]
۵۔ کیا مقطوع کا منقطع پر اطلاق کر سکتے ہیں ؟:
امام شافعی رحمہ اللہ اور امام طبرانی رحمہ اللہ وغیرہ جیسے بعض حضرات نے لفظِ ’’مقطوع‘‘ بول کر اس سے ’’منقطع‘‘ کو مراد لیا ہے یعنی ’’مقطوع‘‘ کا منقطع پر، جس کی سند متصل نہ ہو، اطلاق کیا ہے۔ مگر یہ اصطلاح غیر مشہور ہے۔(مشہور یہی ہے کہ یہ دونوں حدیث کی الگ الگ قسمیں ہیں جیسا کہ پیچھے بیان ہو چکا ہے)امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف سے (ان کے اصحاب نے) یہ عذر پیش کیا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول اصطلاحات کے (وضع اور) مستحکم ہونے سے پہلے کا ہے البتہ طبرانی رحمہ اللہ (کے بارے میں یہ عذر خواہی ممکن نہیں ، کیوں کہ ان کے دور تک اصطلاحات مرتّب و مدون ہوچکی تھیں ، اس لیے ان) کے (مقطوع کے منقطع پر) اطلاق کو ’’اصطلاح میں توسّع اور چشم پوشی‘‘ گردانا جائے گا۔
۶۔احادیث موقوفہ و مقطوعہ کے مآخذ (جہاں انہیں ڈھونڈا جاسکتا ہے):
الف: … مُصَنَّفُ ابْنِ اَبِیْ شِیْبَۃَ
ب: … مُصَنَّفُ عَبْد الرَّزَّاقِ
ج: …ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن منذر کی تفسیریں
مشقی سوالات
مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات دیجئے:
۱۔ قرآن مجید اور حدیث قدسی کے مابین کیا فرق ہے؟
[1] رواہ ابو نعیم فی حلیۃ الاولیاء: ۲/۹۶ (طحّان)
[2] اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس تابعی کو اس کا علم حضرات صحابہ کے واسطے سے ہوا ہے مگر موقعِ بیان میں ان کا نام نہیں لیا۔ البتہ اگر حدیثِ مقطوع حکم کے اعتبار سے مرسل نہ ہو تو ’’موقوف‘‘ بالاتفاق نہ ہوگی۔ اور بعض حضرات کچھ تفصیل کے ساتھ اس کو حجت و دلیل بنانے کے بھی قائل ہیں (علوم الحدیث ملخصاً وبتصرفٍ، ص: ۵۰)